Islam for all-الإسلام للجميع

هل تريد التفاعل مع هذه المساهمة؟ كل ما عليك هو إنشاء حساب جديد ببضع خطوات أو تسجيل الدخول للمتابعة.
Islam for all-الإسلام للجميع

روزوں کے ستر 70مسائل Aya10
Questo sito e' protetto con
Norton Safe Web


    روزوں کے ستر 70مسائل

    الحلاجي محمد
    الحلاجي محمد
    Servo di Allah


    Sesso : ذكر

    Numero di messaggi : 6998

    روزوں کے ستر 70مسائل Empty روزوں کے ستر 70مسائل

    مُساهمة من طرف الحلاجي محمد الأربعاء 8 يونيو - 19:26:45



    " روزوں کے ستر
    70مسائل
    "



    مقدمة



    الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضلّ له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله


    أما بعد :


    اللہ تعالی کی تعریف وشکر ہے ، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں ، اور اس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ، اوراسی سے ہی بخشش طلب کرتے ، اوراپنے نفسوں کی شر اوربرے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں ۔


    جسے اللہ تعالی ھدایت سے نوازے اسے کوئي گمراہ نہیں کرسکتا ، اورجسے وہ گمراہ کردے اسے کوئي راہ نہیں دکھا سکتا ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئي شریک نہيں ، اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔


    امابعد :
    بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فضل کرم اوراحسان کرتے ہوئے خیروبھلائي کا موسم سایہ فگن کیا ہے ، یہ ایسے ایام ہیں جن میں حسنات ونیکیاں زيادہ ہوتی اور گناہوں کو
    مٹایا جاتا اوردرجات میں بلندی ہوتی ہے ۔



    اس موسم میں مومنوں کے نفوس اپنے مولا و آقا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، یقینا وہ شخص کامیاب وکامران ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا ، اور نفس کی پیروی میں پڑنے
    والا شخص خائب وخاسر ہوا ۔

    اللہ سبحانہ وتعالی نے مخلوق کو اپنی عبادت کےلیے پیدا فرمایا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :


    { میں نے تو جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے } ۔


    اورعبادات میں سب سے عظیم عبادت اللہ تعالی کے فرض کردہ روزے ہیں جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا : { تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } ۔

    اللہ تعالی نے مسلمانوں کوروزہ رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :


    { اور تمہارے لیے بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو } ۔

    اوراللہ تعالی نے اس فرضيت پر شکر ادا کرنے کی راہنمائي کرتے ہوئے فرمایا :


    { اوراللہ تعالی کی دی ہوئي ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکرادا کرو } ۔

    اوران روزہ کو ان کے لیے محبوب اورپسندیدہ بنایا اوران پر آسانی اورتخفیف کی تا کہ لوگوں کو اپنی عادات اورمالوف کردہ اشیاء ترک کرنا بوجھ محسوس نہ ہو اللہ تعالی نے
    فرمایا :


    { گنتی کے چند دن ہیں } ۔

    اوراللہ تعالی نے اپنے بندوں پر تنگی اورحرج کاخیال رکھتے ہوئے رحمدلی کرتے ہوئے فرمایا :


    { تم میں سے جوبھی مریض ہویا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی مکمل کرے }

    لھذا اس میں کوئي تعجب والی بات نہیں کہ اس ماہ مبارک میں مومنوں کے دل اللہ رب رحیم کی طرف متوجہ ہوں اوراس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے
    اجروثواب اور فلاح وکامیابی کی امید رکھیں ۔



    جب اس عظیم عبادت کی بہت ہی قدروقیمت ہے لھذا اس ماہ مبارک کے روزوں کے احکام جاننے ضروری ہیں ، تاکہ مسلمان کو علم ہوسکے کہ اس پر کونسا عمل واجب اورضروری ہے اورحرام کیا ہے تا کہ اس سے اجتناب کیا جاسکے ، اورکونسی چيز مباح ہے جس کے رکنے سے وہ اپنے آپ پر تنگی نہ کرتا پھرے ۔



    یہ مختصر سا کتابچہ روزوں کے احکام اوراس کی سنن وآداب کا خلاصہ ہے ، میں نے اس میں اختصارکا خیال رکھا ہے ، امید ہے کہ اللہ تعالی میرے اور مسلمان بھائيوں کے لیے اسے مفید بنائے ، والحمد للہ رب العالمین ۔




    روزے کی تعریف


    :



    1
    - الصوم لغت عرب میں الامساک یعنی رکنے کو کہتے ہیں ۔

    شرعی اصطلاح میں طلوع فجر سے لیکر غروب شمس تک مفطرات یعنی روزہ توڑنے والی اشیاء سے نیت کے ساتھ رکنے کو روزہ کہا جاتا ہے ۔



    روزے کے احکام :

    2
    - امت کا اجماع ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہیں ،اس کی دلیل مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی ہے :


    { اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } ۔
    روزے کی فرضيت پر سنت نبویہ میں بھی دلائل پائے جاتےہيں جن میں سے ایک دلیل مندرجہ ذیل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :


    ( اسلام کی بنیاد پانچ چيزوں پر ہے ۔۔۔۔ اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ) صحیح بخاری دیکھیں فتح الباری ( 1 / 49)



    جس شخص نے بھی بغیر کسی ‏عذر کے رمضان کا روزہ نہ رکھا اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :



    ( جب ہم پہاڑ کے پر پہنچے تو وہاں شدید قسم کی چیخ وپکار تھی میں نے کہا یہ آوازيں کیسی ہیں ؟ وہ کہنے لگے : یہ جہنمیوں کی آہ بکا ہے ، پھر مجھے اور آگے لے جایا گيا
    تومیں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکایا ہوا تھاان کی باچھیں کٹی ہوئي
    تھیں اوران سے خون بہہ رہا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا : میں نے فرشتوں سے
    پوچھا یہ کون ہیں ؟



    وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی روزہ کھول دیتے تھے ) صحیح
    الترغیب ( 1/ 420

    ) ۔



    امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :



    مومنوں کے یہ بات طے شدہ ہے کہ رمضان ا لمبارک میں بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنے
    والا شخص زانی اورشرابی سے بھی زيادہ برا اورشریر ہے ، بلکہ اس کے اسلام میں ہی شک
    کرتے ہيں ، اوراسے زندیق اورگمراہ تصور کرتے ہیں ۔



    شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :



    اگر کوئي شخص رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھنے کی حرمت کا علم ہوتے ہوئے بھی روزہ
    افطار کرنا حلال سمجھے تو وہ واجب القتل ہے ، اوراگر فاسق ہو تو رمضان میں روزہ نہ
    رکھنے کی بنا پر اسے سزا دی جائے گی ۔



    دیکھیں مجموع الفتاوی ( 25 /
    265

    ) ۔






    روزے کی فضیلت





    3

    - روزے کی بہت عظيم فضیلت ہے جس کے بیان میں بہت سی احادیث وارد ہيں ذیل میں ہم
    چند ایک صحیح احادیث نقل کرتے ہيں :



    روزہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالی نے اپنے ساتھ خاص کیا ہے اوریہ وہ روزہ دار کو خود
    ہی بلاحساب اجروثواب سے نوازے گا جیسا کہ حدیث میں ہے :


    (
    سوائے روزے کے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجر دونگا ) صحح بخاری
    حدیث نمبر ( 1904

    ) ، صحیح الترغیب ( 1 / 407

    ) ۔



    اوریہ کہ روزے کے پلے کا کوئي عمل نہيں ، دیکھیں سنن نسائي (
    3 / 345

    ) اورصحیح الترغیب ( 1 / 413

    ) ۔



    یہ بھی فضیلت ہے کہ روزہ دار کی دعا رد نہيں ہوتی ۔ دیکھيں سنن بیھقی (
    3 / 345

    ) اورسلسلۃ احادیث الصحیحۃ (
    1797

    ) ۔



    اوریہ کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، جب وہ افطاری کرتا ہے تواپنی افطاری سے
    خوش ہوتا ہے ، اورجب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا ۔
    دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 807

    ) ۔



    اور یہ بھی فضیلت ہے کہ روزہ قیامت کے دن روزہ دار کے لیے سفارش کرتے ہوئے کہے گا :
    اے رب میں نے اسے دن کو کھانے پینے اورشھوات سے روک دیا تھا اب اس کے بارہ میں میرے
    سفارش قبول فرما ۔



    دیکھیں مسند احمد ( 2 / 174

    ) ھیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے دیکھیں المجمع (
    3 / 181

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 411

    ) ۔



    اللہ تعالی کے ہاں روزہ دار کے مونہہ کی بو کستوری سے بھی زيادہ اچھی ہے ۔ دیکھیں
    صحیح مسلم ( 2 / 807

    ) ۔



    اوریہ کہ : جہنم کی آگ سے روزہ بچاؤ اورڈھال ہے ۔



    دیکھیں مسنداحمد ( 2 / 402

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 411

    ) صحیح الجامع ( 3880

    ) ۔



    جس نے بھی فی سبیل اللہ ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالی اس دن کے بدلے میں اسے جہنم
    سے ستر برس دور کردے گا ۔



    دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 808

    ) ۔



    اوریہ بھی فضیلت ہے کہ : جس نے بھی ایک اللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دن کا روزہ
    رکھا اس کی وجہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ مسند احمد (
    5 / 391

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 412

    ) ۔



    اورجنت میں الریان نامی ایک دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں ان کے
    علاوہ کوئي اورداخل نہيں ہوسکتا جب روزہ دار داخل ہوجائيں گے تو یہ دروازہ بند
    کردیا جائے گا ۔



    صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1797

    ) ۔



    اور رمضان المبارک کے روزے رکن اسلام ہیں اورماہ رمضان میں ہی قرآن مجید نازل
    کیاگيا ، اوراسی ماہ مبارک میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار راتوں سے بھی زيادہ افضل
    ہے ۔



    جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے
    دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر
    ( 3277

    ) ۔



    رمضان المبارک کے روزے دس ماہ کے برابر ہیں ۔ دیکھیں مسند احمد (
    5 / 280

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 421

    ) ۔



    جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے روزے رکھے اس کے پچھلے
    تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔



    دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر (
    37

    ) ۔



    ہر افطار کے وقت اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔ دیکھیں مسند احمد (
    5 / 256

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 419

    ) ۔






    روزے کے فوائد





    4

    - روزے کی بہت ساری حکمتیں اورفوائد ہیں جن کا دارومدار تقوی ہی ہے جس کا اللہ
    تعالی اپنے فرمان " تا کہ تم تقوی اختیار کرو " میں بیان کیا ہے ۔



    اس کی تفصیل یہ ہے کہ : جب اللہ تعالی کی رضامندی چاہتے ہوئے اوراس کے ‏عذاب کے خوف
    سے مسلمان حلال چيزوں سے بھی روزے کی حالت میں رک جاتا ہے تو وہ بالاولی حرام اشیاء
    سے اجتناب کرے گا ۔



    اوریہ کہ جب انسان کا پیٹ خالی ہواوراسے بھوک ہو تو اس کے حواس سے بھوک جاتی رہتی
    ہے ، اورجب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو تواس کی زبان ، آنکھیں ، ہاتھ اورشرمگاہ بھوکی
    ہوجاتی ہے ، لھذا روزہ شیطان کو ذلیل کرتا اورشھوت کو توڑتا اور اعضاء کی حفاظت
    کرتا ہے ۔



    جب روزہ دار بھوک اورپیاس کی شدت پاتا ہے تو اسے فقراء اورمساکین کے حالات کا احساس
    ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتا ہے ،
    کیونکہ کسی چيز کی خبر اسے دیکھنے کی طرح نہيں ہوتی ، اورنہ ہی سوار پیدل چلنے کے
    بغیر پیدل چلنے والی کی مشقت کو جان سکتا ہے ۔



    روزہ خواہشات سے اجتناب اورگناہوں سے دوررہنے کے ارادہ کو زيادہ کرتا ہے ، کیونکہ
    اس میں طبیعت کودبانا اورنفس کو مالوف اشیاء سے دور کرنا ہوتا ہے ، اورروزہ میں نظم
    کا عادی بنایا جاتا ہے اوروعدوں کو بروقت پورا کرنے کی مشق ہوتی ہے جس کی بنا پر
    بدنظمی کرنے والوں کا علاج ہے ، لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عقل وبصیرت سے کام لیا
    جائے ۔



    اسی طرح روزے میں مسلمانوں کی وحدت کا اعلان ہے لھذا سب مسلمان ایک ہی ماہ میں
    اکٹھے روزہ رکھتے اوراکٹھے ہی افطار کرتے ہیں ۔



    روزوں میں مبلغین اورواعظین حضرات کےلیے فرصت اورسنہری موقع ہوتا ہے کہ وہ لوگوں تک
    دعوت دین پہنچاسکیں ، دیکھیں اس ماہ مبارک میں لوگوں کے دل مسجدوں کی طرف کھنچے چلے
    آرہے ہیں بلکہ بعض تو وہ بھی ہوتے ہیں جوپہلی بار مسجد میں داخل ہوئے ہيں ۔



    اورکچھ وہ بھی ہیں جوبہت مدت بعد مسجد کا رخ کررہے ہیں ، اوروہ اس وقت نادر رقت کی
    حالت میں ہیں جوکبھی کبھی ہوتی ہے ، اس لیے اس فرصت کو موقع غنیمت جانتے ہوئے درس
    اوروعظ کے ذریعہ لوگوں کو دعوت دینی چاہیے ، اورایک دوسرے سے نیکی وبھلائي میں
    تعاون کرنا چاہیے ۔



    واعظ اورداعی کوبالکل دوسروں میں ہی مشغول نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بھول
    ہی جائے اوراس شمع کی طرح ہو جودوسروں کوتو روشنی دیتی ہے اوراپنا آپ جلاتی رہتی یا
    پھر ایسے ہو کہ چراغ تلے اندھیرا ؟ ۔






    روزوں کے آداب و سنن





    5

    - روزے کے آداب اورسنن ۔



    ان میں کچھ تو واجب اورکچھ مستحب ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :



    سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا ۔



    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ) صحیح بخاری (
    4 / 139

    ) ۔



    یہ کھانا بابرکت ہے ، اورسحری کھانے میں اہل کتاب کی مخالفت بھی پائي جاتی ہے ،
    اورپھر مومن کی سب سے بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ دیکھیں سنن ابوداود حدیث نمبر (
    2345

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 448

    ) ۔



    افطاری میں جلدی کرنی چاہیے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :



    (
    جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائي موجود رہے گی ) صحیح بخاری
    ( 4 / 198

    ) ۔



    اسے حدیث میں بیان کی گئي اشیاء سے روزہ افطار کرنا چاہیے ، انس رضی اللہ تعالی عنہ
    بیان کرتے ہیں کہ :


    (
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب
    نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئي کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک
    آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ) سنن ترمذی (
    3 / 79

    ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ
    اللہ تعالی نے ارواء الغلیل (
    922

    ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔



    نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے بعد مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :



    ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری
    کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے :


    (


    ذهب الظمأ ، وابتلت العروق ، وثبت الأجر إن شاء الله

    ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئيں اورانشاء اللہ اجر ثابت ہوگيا ۔



    سنن ابوداود ( 2 / 765

    ) دار قطنی نے اسے حسن قرار دیا ہے دیکھیں سنن دار قطنی (
    2 / 185

    ) ۔



    بے ہودہ بات چيت اوراعمال سے اجتناب کرنا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
    فرمان ہے :


    (
    تم میں سے جب کوئي روزہ سے ہو تووہ گناہ کےکام نہ کرے ) رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا
    ہے ۔



    اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    جوکوئي بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے
    اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
    1903

    ) ۔



    لھذا روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرحرام کردہ چيز سے اجتناب کرے مثلا چغلی
    وغیبت اورفحش گوئي وجھوٹ وغیرہ سے پرہیز کرے کیونکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے بعض
    اوقات اس کےروزے کا اجر ہی ضا‏ئع ہوجاتا ہے ۔



    ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن
    ماجہ ( 1 / 539

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 453

    ) ۔



    نیکیوں کوختم کرنے اوربرائيوں کو کھینچنے والی اشیاء میں فلمیں اورڈراموں اورکھیل
    کود میں وقت اوراسی طرح فارغ بیٹھے رہنے اوربرے اخلاق اوروقت ضائع کرنے والوں کے
    ساتھ راستوں اورگلی محلہ میں آوارہ گھومنا ، اورگاڑیوں سے کھیلنا ، راستوں اور فٹ
    پاتھوں پر بھیڑ کرنا ، یہ سب اشیاء نیکیوں کو ختم کرتی اوربرائي پیدا کرتی ہيں ۔



    حتی کہ یہ ماہ مبارک جو تھجد اورقیام اللیل کا مہینہ تھا اکثر لوگ تو سارا دن سو
    کرگزار دیتے ہیں تا کہ بھوک وپیاس کا احساس نہ ہوسکے ، جس کی بنا پر باجماعت نمازيں
    ضائع ہوتی ہیں اوربعض اوقات تو نماز کے وقت میں بھی ادائيگي نہیں ہوتی ، پھر رات کو
    کھیل کود اورشھوات میں پڑے رہتےہیں ، اوربعض لوگ تورمضان کے آنے پر پریشان ہوجاتے
    ہیں کہ ان کی لذتیں جاتی رہیں گی اورکچھ لوگ رمضان المبارک میں کفار ممالک میں چلے
    جاتے ہيں تا کہ تا کہ وہاں پر وہ کچھ کرسکیں جواپنے ملک میں کرنا مشکل ہے ! ۔



    حتی کہ اب تو مساجد بھی منکرات سے خالی نہیں رہتیں بلکہ عورتیں نماز پڑھنے کے بہانے
    سے عطروخوشبو اورطرح طرح کی پرفیومز اسعتمال کرلے بے پردہ ہوکرنکلتی ہیں جس سے فتنہ
    پیدا ہوتا ہے ، حتی کہ بیت اللہ بھی ان آفات سے خالی نظر نہیں آتا ۔



    اورکچھ لوگوں نے تو رمضان المبارک مانگنے اورسوال کرنے کا سیزن بنا رکھا ہے حالانکہ
    وہ محتاج نہيں اور اس سے سوال کے لیے دست دراز کرنا صحیح نہيں ، اوربعض لوگ تو اس
    ماہ مبارک میں آتشبازي اورپٹاخے وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہوتے ہيں ، اورکچھ منچلے
    تو بازاروں اورشاپنگ سینٹروں میں گھومتے اورتالیاں و سیٹیاں بجاتےنظر آتے ہیں ۔



    اورکچھ عورتیں توسلائی اورخوبصورتی کےپیچھے پڑي رہتی ہیں ، اوررمضان کے آخری عشرہ
    میں نئے نئے ماڈل کے ملبوسات بازارمیں آتے ہیں جو لوگوں کو اجروثواب اورنیکیوں سے
    محروم کرنے کا با‏عث بنتے ہیں ۔


    ٭
    روزہ دار کوشور شرابا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :



    (
    اگر روزہ دار سے کوئي شخص لڑائي جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ ہو تو اسے یہ کہنا
    چاہیے میرا روزہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
    1894

    ) ۔



    اس حدیث میں ایک نصیحت تو خود روزہ دارکوہے اوردوسری اس سے لڑنے والے شخص کو کی گئي
    ہے ، لیکن اس دور میں اگربہت سے روزہ داروں کے اخلاق کو دیکھا جائے تو اس اخلاق
    فاضلہ کے خلاف ہی ان کے اخلاق ہوتے ہیں لھذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ صبر وتحمل کا
    مظاہرہ کرے ۔



    اور اسی طرح اسے وقار اورسکینت اختیار کرنی چاہیے لیکن اس کے برعکس آپ دیکھیں گے کہ
    بہت سے ڈرائیور مغرب کی اذان کے وقت جنونی قسم کی ڈرائيونگ کرتے ہیں ۔


    ٭
    کھانا پینے میں کمی کرنی چاہیے ، اس لیے کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
    فرمان ہے :


    (
    ابن آدم کا بھرا ہوا پیٹ سب سے برا برتن ہے ۔۔۔۔ ) سنن ترمذي حدیث نمبر (
    2380

    ) ۔



    عقل مند توصرف زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ کہ وہ کھانے کے لیے زندہ رہتا ہے ،
    رمضان المبارک میں انواع اقسام کےکھانے تیار کیے جاتے ہیں ، اورکھانے پکانے میں ایک
    دوسرے کا مقابلہ ہوتا ہے کہ کون اچھا پکانےوالا ہے ، حتی اس ماہ مبارک میں
    گھروالیوں اورملازماؤں کا اکثر وقت تو کھانا پکانے میں صرف ہوجاتا ہے ، جس کی بنا
    پر وہ عبادت سے محروم رہتیں ہیں ۔



    اوراس ماہ مبارک میں سب سے زيادہ خرچہ کھانے پکانے پر ہی کیا جاتا ہے حالانکہ عام
    دنوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا ، بلکہ یہ مہینہ تو معدہ کے امراض اورموٹاپن
    پیدا ہونا کا مہینہ بن چکا ہے ، وہ لالچی اورحریص کی طرح کھاتے اورپیاسے اونٹ کی
    طرح پیتے ہیں ، اورجب نماز کی باری آئے تو سستی اورکاہلی سے نماز میں کھڑے ہوتے ہیں
    ، اورکچھ تو پہلی دورکعت ادا کرنے کے بعدہی بھاگ جاتے ہیں ۔


    ٭
    روزہ میں علم ومال کی دولت ، اوربدن وعزت وشرف اوراخلاق کی دولت کو سخاوت کرکے
    لٹایا جاتا ہے ۔



    صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
    وسلم سب لوگوں سے يادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک
    میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زيادہ جود وسخا کرتے
    جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ،
    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زيادہ خیروبھلائي کی جود وسخا کرنے
    والے تھے ۔



    صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6

    ) ۔



    اب ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے جود وسخا کو بخل سے اوراللہ تعالی کی اطاعت میں
    نشاط کو سستی وکاہلی سے بدل ڈالا ہے ، وہ نہ تو اعمال ہی بہتر اوراچھے اور پختہ
    کرتے ہیں اور نہ ہی معاملات میں اچھا برتاؤ کرتے ہیں روزہ کووسیلہ بناتے ہیں ۔



    روزہ رکھنا اور دوسرے کو کھلانا اگرکسی میں یہ دونوں چیزيں جمع ہوں تویہ جنت میں
    داخل ہونے کا ایک سبب ہے ، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے فرمان
    میں بیان کیا ہے :


    (
    یقینا جنت میں ایسے کمرے ہیں ان کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظرآتا ہے ، اوراندر سے
    اس کا باہر والاحصہ نظر آتا ہے ، اللہ تعالی نے یہ کمرے کھانا کھلانے ، اوربات چيت
    میں نرم رویہ اختیاروالے ، روزہ دار، اور رات کوجب لوگو سوئے ہوں تو نماز پڑھنے
    والے کے لیےتیار کیے ہیں ) مسند احمد (
    5 / 343

    ) صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر (
    2137

    ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔



    اور ایک روایت میں ہے کہ :



    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے کسی روزہ دارکوافطاری کروائی اسے بھی
    روزہ دارجیسا اجروثواب حاصل ہوگا ، اورروزہ دارکے اجروثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگي )
    سنن ترمذی ( 3 / 171

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 451

    ) ۔



    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :



    افطاری کروانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا جائے ۔ دیکھیں
    الاختیارات الفقھيۃ صفحہ نمبر (
    109

    ) ۔



    بہت سے سلف صالحین رحمہ اللہ تعالی نےفقراء کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی افطاری فقراء
    ومساکین کو دے دی ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ، مالک بن دینا ،
    احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہيں ، بلکہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما تو
    یتیموں اورمسکینوں کے بغیرافطاری ہی نہيں کرتے تھے ۔



    اس ماہ مبارک میں کرنے والے ضروری کام :





    ٭
    نفوس اورماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا ، اورتوبہ و اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے
    میں جلدی کرنا ، ماہ رمضان کے آنے پر خوشی محسوس کرنا ، روزے کو اچھے اوربہتر انداز
    اورپختگی سے رکھنا ، ، نماز تروایح میں خشوع وخضوع اختیار کرنا ، دوسرے عشرے میں
    نماز تراویح سے پیچھے نہ ہٹنا ، لیلۃ القدر کی تلاش اورعبادت کرنا ، ایک بارقرآن
    مجید پڑھنے کے بعد دوبارہ غوروفکر اورتدبر سے پڑھنا ، رمضان میں عمرہ حج کے برابر
    ہے ، فضیلت والے ماہ مبارک میں صدقہ وخیرات کرنا بڑے اوردوگنے اجروثواب کا باعث ہے
    ، رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔


    ٭
    رمضان المبارک شروع ہونے کی مبارکباد دینے میں کوئي حرج نہيں ، نبی اکرم صلی اللہ
    علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو رمضان المبارک کے آنے کی خوشخبری دیا کرتے اوراس کا
    خیال رکھنے پر ابھارا کرتے تھے ۔



    ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرےت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
    فرمایا :


    (
    تم پر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سايہ فگن ہورہا ہے ، اللہ تعالی نے تم پر اس
    کے روزے فرض کیے ہیں ، اس مین آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، اورجہنم کے
    دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اوربڑے بڑے سرکش شیطان جکڑ دیے جاتے ہيں ، اس میں ایک
    رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے ، جوبھی رمضان کی خیر سے محروم کردیا گيا وہ
    محروم ہی ہے ) ۔



    سنن نسائي ( 4 / 129

    ) صحیح الترغیب ( 1 / 490

    ) ۔



    روزے کے بعض احکام





    6

    - کچھ روزے تو ایسے ہیں جو مسلسل رکھنے واجب ہیں مثلا رمضان المبارک اورکفارہ قتل
    اورکفارہ ظہار اور رمضان میں دن کےوقت روزے کی حالت میں جماع کے کفارہ میں رکھے
    جانے والے روزے ۔



    اورکچھ روزے ایسے ہیں جس میں تسلسل لازم نہیں ، مثلا رمضان المبارک کی قضاء ،
    اورجوشخص قسم کا کفارہ میں رکھے جانے والے روزے اورحج میں قربانی نہ پانے والے کے
    دس روزے ، یہ جمہور کا مسلک ہے ، ( احرام کی حالت میں ممنوعہ عمل کرنے کے فدیہ میں
    رکھے جانے والے روزے ) راجح مسلک یہی ہے ، اوراسی طرح مطلقا نذر کےروزے جس میں اس
    نے تسلسل کی نیت نہ کی ہو ۔


    7
    -
    نفلی روزے فرضی روزوں کی کمی کو پورا کرتے ہیں ، اس کی مثال عاشوراء اوریوم عرفہ ،
    اورایام بیض یعنی تیرہ چودہ اورپندرہ تاریخ کا روزہ ، پیر اورجمعرات کا روزہ ،
    اورشوال کے چھ روزے ، اورمحرم اورشعبان میں اکثریت سے روزے رکھنا ۔


    8

    صرف اکیلا جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے جیسا کہ بخاری کی حدیث نمبر (
    1985

    ) میں بھی مذکور ہے ، اوراسی طرح فرضی روزے کے علاوہ صرف ہفتہ کے دن کا روزہ رکھنا
    بھی منع ہے ۔ دیکھیں سنن ترمذی (
    3 / 111

    ) ۔



    مقصد یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے صرف جمعہ یا ہفتہ کا روزہ رکھا جائے یہ منع ہے ،
    اوراسی طرح سارا سال ہی روزہ رکھنے بھی منع ہیں ، اورروزمیں وصال بھی منع ہے یعنی
    دو یا دو سے زيادہ دن افطاری کیے بغیر ایک روزے کو دوسرے سے ملا لیا جائے ۔



    عیدالفطر اورعید الاضحی اورایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ ، اورتیرہ ذوالحجہ کو روزہ
    رکھنا حرام ہے کیونکہ یہ کھانے پینے کے دن ہيں ، لیکن حج تمتع اورقران میں جس کے
    پاس قربانی نہ ہو وہ ان ایام کے روزے منی میں رکھ سکتا ہے ایسا کرنا اس کے لیے جائز
    ہے ۔



    ماہ رمضان کی ابتداء





    9
    -
    ماہ رمضان کی ابتداء چاند دیکھنے یا پھر شعبان کے تیس دن پورے ہونے پررمضان المبارک
    شروع ہوتا ہے ، لھذا جو بھی چاند دیکھے یا کسی ثقہ شخص کی جانب سے چاند دیکھے جانے
    کی خبر ملے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ۔



    لیکن فلکی حسابات کی بناپر مہینہ شروع کرنے کا عمل بدعت ہے ، کیونکہ حدیث مین
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااسی مسئلہ میں فرمان ہے کہ :


    (
    چاند دیکھ روزہ رکھو اورچاند دیکھ کرہی روزے ختم کرو ) ۔



    لھذا جب کسی مسلمان عاقل بالغ اورثقہ شخص کی جانب سے یہ خبر ملے کہ اس نے اپنی
    آنکھوں سے چاند دیکھا ہے تواس کی خبر پر عمل کرتے ہوئے روزے رکھے جائيں گے ۔






    روزے کس پر فرض ہیں ؟





    10

    - ہرعاقل بالغ مقیم اورقادر اورموانع ( یعنی حیض و نفاس ) سےسالم مسلمان پر روزے
    رکھنا فرض ہیں ۔



    بلوغت تین اشیاء میں سے ایک چيز کے پیدا ہونے پربلوغت ہوجاتی ہے : احتلام وغیرہ کے
    ذریعہ منی کا انزال ، زیرناف سخت بال اگنا ، عمر پندرہ برس مکمل ہوجانا ، لیکن لڑکی
    میں حیض کے اضافہ کے ساتھ چارچيزوں میں سے کسی ایک کے آنے پر بلوغت ثابت ہوجاتی ہے
    ، اس لیے حیض آنے پر لڑکی پر روزے فرض ہوجائيں گے جاہے اسے دس برس کی عمر سے قبل ہی
    حیض آجائے


    11

    - سات برس کی عمرکا بچہ اگر روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تواسے بھی روزہ رکھنے کا
    حکم دیا جائے گا ، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب بچہ دس برس کی عمرمیں روزہ نہ رکھے
    تو اسے نمازترک کرنے کی طرح سزا دی جائے گی ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ (
    3/ 90

    ) ۔



    بچہ کوروزے کا اجروثواب حاصل ہوگا اوراس کے والدین کو تربیت اورنیکی وبھلائي سکھانے
    کا اجرحاصل ہوگا حدیث میں ہے کہ :



    ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالی عنہا عاشوراء کے روزے کی فرضیت کے بارہ میں کہتی ہیں
    :



    جب عاشوراء کا روزہ فرض ہوا تو ہمارے بچے روزہ رکھتے تھے ، اورہم ان کے لیے روئی کے
    کھلونے بنا کررکھتے جب ان میں سے کوئي بھوک کی وجہ سے رونے لگتا تو ہم وہ کھلونا
    اسے دیتے اورافطاری تک اس کےپاس ہی رہتا ۔



    صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1960

    ) ۔



    اوربعض لوگ اپنے بچوں کے ساتھ روزوں کے معاملہ میں سستی سے کام لیتے ہیں ، بلکہ
    بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچہ شوق سے روزہ رکھ لیتا اوروہ اس کی طاقت بھی
    رکھتا ہے تواس کے والدین اپنے خیال میں اس پرشفقت کرتے ہوئے اسے روزہ توڑنے کا کہتے
    ہیں ، لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ بچوں پر حقیقی شفقت تویہی ہے کہ وہ انہیں روزہ
    رکھنے کا عادی بنائيں ۔



    اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


    {
    اے ایمان والو اپنے آپ اوراپنے گھروالوں کوجہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ
    اورپتھر ہیں ، اس پر سخت قسم کے فرشتے مقرر ہیں جواللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی
    نہيں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا جاتا وہ اسے بجا لاتے ہیں } ۔


    12

    - جب کافر اسلام قبول کرلے یا پھر بچہ بالغ ہوجائے یا مجنون اورپاگل دن کے وقت ہوش
    قائم کرلے تو اسے باقی سارا دن کچھ بھی نہیں کھانا پینا چاہیے کیونکہ ان پر روزہ
    واجب ہوچکا ہے ، لیکن انہیں اس سے پہلے گزرے ہوئے روزے قضاء نہیں کرنا پڑیں گے ، اس
    لیے کہ اس وقت ان پرروزے فرض نہيں تھے ۔


    13

    - مجنون اورپاگل مرفوع عن القلم ہے ، لیکن اگر اسے بعض اوقات پاگل پن کا دورہ پڑتا
    ہو اوربعض اوقات وہ ہوش وہواس میں رہتا ہو توہوش کےوقت اس پر روزہ رکھنا واجب ہے
    لیکن جنون کی حالت میں نہيں ۔
    الحلاجي محمد
    الحلاجي محمد
    Servo di Allah


    Sesso : ذكر

    Numero di messaggi : 6998

    روزوں کے ستر 70مسائل Empty رد: روزوں کے ستر 70مسائل

    مُساهمة من طرف الحلاجي محمد الأربعاء 8 يونيو - 19:36:41



    مسافر ۔



    16
    - سفر میں روزہ نہ رکھنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عرف یا مسافت کے لحاظ سے سفر شمار ہو
    ( علماء کرام میں پائے جانے والے اختلاف کے باوجود ) یہ کہ شہر سے تجاوز کرچکا ہو
    شہر سےنکلنے سے قبل روزہ چھوڑنا جمہور علماء کرام کے ہاں صحیح نہيں ۔



    ان کا کہنا ہے کہ سفرثابت نہيں ہوا بلکہ ابھی تک تو وہ مقیم اورحاضر ہی ہے ،
    اوراللہ تعالی کا فرمان ہے :


    {
    تم میں سے جو بھی اس ماہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے } ۔



    شہر سے نکلنے سے قبل اسے مسافرنہیں کہا جائے گا ، لیکن اگر وہ شھر میں ہی ہو تو اس
    کا حکم حاضراورمقیم کا ہی ہوگا جس کی بنا پر وہ نماز قصر نہيں کرےگا ۔



    اوریہ بھی شرط ہے کہ وہ سفر معصیت کے لیے نہ ہو ( جمہور علماء کرام کے ہاں یہی شرط
    ہے ) ، اور سفر اس لیے نہ کرے کہ وہ روزہ افطار کرنے کا حیلہ ہو ۔


    17
    - امت اس پر متفق ہے کہ مسافر کےلیے روزہ نہ رکھنا جا‏ئز ہے چاہے وہ روزہ رکھنے کی
    طاقت رکھتا ہویا پھر وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہی کیوں نہ ہو ، اوراگرچہ اسے روزہ
    رکھنے میں مشقت پیش آئے یا مشقت نہ ہو ، مثلا اس طرح کہ اگر کوئي شخص سائے میں سفر
    کررہا ہو اوراس کے ساتھ پانی بھی ہو اورخدمت کے لیے خادم بھی توایسے شخص کے لیے بھی
    روزہ افطار کرنا جائز ہے ہوگا اوروہ نماز بھی قصر ادا کرے گا ۔



    دیکھیں : مجموع الفتاوی (
    25 /
    210
    ) ۔


    18
    - جوشخص رمضان المبارک میں سفر کرنے کا عزم کرے تواسے سفرسے پہلے روزہ افطار کرنے
    کی نیت نہيں کرنی چاہیے ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اسے بیماری سفر سے روک دے ۔




    دیکھیں تفسیر القرطبی (
    2 /
    278
    ) ۔



    مسافراپنے شہر کو چھوڑنے سے قبل ہی روزہ افطار نہ کرے بلکہ جب وہ آبادی سے باہر نکل
    جائے تو پھر روزہ افطار کرے ، اسی طرح جب ہوائي جہاز آڑان بھرلے اورآبادی سے دور
    ہوجائے تو افطار کرنا چاہیے ، لیکن اگر ایرپورٹ شہر سے باہرہو تو وہ روزہ افطار
    کرسکتا ہے ، اوراگر ہوائي اڈا اس کے شہر میں ہی ہویا اس سے ملحق ہو تواسے روزہ
    افطار نہيں کرنا چاہیے کیونکہ وہ ابھی تک شہر میں ہی ہے ۔


    19
    - جب کوئي زمین پرغروب شمس کے بعد روزہ افطار کرے اورپھر ہوائي جہاز کے ذریعہ
    فضامیں پہنچے تو سورج دیکھ اسےکھانے پینے سے نہيں رکے گا ، کیونکہ وہ تو اس دن کا
    اپنا روزہ مکمل کرچکا ہے لھذا کسی عبادت کی ادائيگي کے بعد اسے دوبارہ ادا نہيں کیا
    جائے گا ۔



    اوراگر ہوائي جہاز غروب شمس کے بعد اڑان بھر کرفضا میں پہنچے توفضا میں سورج نظرآنے
    تک روزہ افطار نہیں کیا جاسکتا ، اوراسی طرح پائلٹ کے لیے جائزنہیں کہ وہ افطاری
    کرنے کے لیےہوائي جہاز کی بلندی اتنی کم کردے جہاں سے سورج نظر نہ آئے کیونکہ یہ
    حیلہ ہے ، لیکن اگر وہ ہوائي جہاز کی مصلحت کی بنا پر بلندی میں کمی کرتا ہے توسورج
    کی ٹکیا غا‏ئب ہوجانے پر روزہ افطار کرسکتا ہے ۔



    شیخ ابن بازرحمہ اللہ کا بالمشافہ فتوی ۔


    20
    - جوکوئي کسی ملک میں پہنچے اوروہاں چاریوم سے زيادہ ٹھرنے کی نیت کرے تو
    جمہورعلماء کرام کے ہاں اس پر روزے رکھنے واجب ہوں گے ، اوراسی طرح جو طالب علم
    پڑھائي کے لیے کچھ ماہ یا برسوں کےلیے شہر سے باہر جائے وہ مقیم کے حکم میں ہوگا ،
    جمہور جن میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہیں کے ہاں وہ بھی مقیم کے حکم میں ہے اوراسے
    نماز مکمل کرنا ہوگي اور روزے رکھنا ہونگے ۔



    اوراگر کوئي مسافر کسی بھی ملک سے گزر رہا ہو تو اس پر لازم نہيں کہ وہ دن کا باقی
    حصہ کچھ نہ کھائے پیۓ ، لیکن اگر وہ وہاں چاریوم سے زيادہ رہنے تووہ روزہ رکھے گااس
    لیے کہ وہ مقیم کے حکم میں ہے ۔



    دیکھیں فتاوی الدعوۃ ابن باز رحمہ اللہ تعالی (
    977
    ) ۔



    21
    - جوشخص مقیم ہونے کی صورت میں روزے کا آغاز کرے پھر دن کے دوران ہی سفر کرے تو اس
    کےلیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اس لیےکہ اللہ تعالی نے سفر کو رخصت کا سبب قرار
    دیتے ہوئے فرمایا ہے :


    {
    جوکوئي بھی مریض یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے } ۔


    22
    - ہروقت سفر کرنے والے کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے مثلا ڈاکیا جومسلمانوں کی
    مصلحت کے لیے سفر میں ہی رہتا ہے ( اوراسی طرح گاڑیوں کے ڈرائیور ، اورہوائي جہاز
    کے پائلٹ ، اورملازم حضرات اگرچہ وہ روزانہ ہی سفر پر رہتے ہوں لیکن انہيں قضاءمیں
    روزے رکھنا ہونگے )



    اوراسی طرح وہ ملاح جس کی خشکی پر رہائش ہو لیکن وہ ملاح جس کےساتھ اس کی بیوی
    اورضروریات زندگی سب کشتی میں ہوں اوروہ ہر وقت سمندر میں سفر پر ہی رہتا ہو توایسا
    شخص نہ تو نماز قصرکرے گا اورنہ ہی روزہ افطار کرے گا ۔



    اوراسی طرح وہ خانہ بدوش جوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہوں اپنا ٹھکانہ
    بدلتے ہوئے سفر میں نماز بھی قصر کرسکتے ہیں اورروزہ بھی افطار کرسکتے ہیں ، لیکن
    جب وہ سردیوں اورگرمیوں والے اپنے ٹھکانہ پرپہنچ جائيں تووہ نماز مکمل پڑھیں گے
    اورروزہ بھی رکھیں گے، چاہے وہ اپنے جانوروں کے پیچھے ہی بھاگتے پھریں ۔



    دیکھیں مجموع فتاوی ابن تمیمہ (
    25 / 213
    ) ۔



    23
    - جب مسافر دن کے دوران سفر سے واپس آجائے تواس پرواجب ہے کہ وہ اس دن کے بقیہ حصہ
    میں کچھ بھی نہ کھائے پیۓ ، اس میں علماء کرام کے مابین نزاع مشہور ہے ، دیکھیں :
    مجموع الفتاوی (
    25 / 212
    ) ۔



    لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ رمضان المبارک کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں
    کھانا پینا چاہیے ، لیکن اس پراس دن کی قضاء واجب ہوگي چاہے وہ اس دن کھائے پیۓ یہ
    بغیر کھائے ہی گزارے ۔


    24
    - جب کسی ملک میں وہ رمضان کی ابتدا کرکے کسی دوسرے ملک میں جائے جہاں ایک دن قبل
    یا بعد میں رمضان شروع ہوا ہو تو اس کا حکم بھی ان کے ساتھ ہی ہوگا وہ ان کےساتھ ہی
    روزہ رکھے گا اوران کے ساتھ ہی عید کرےگا ، اگرچہ تیس سے بھی زيادہ روزے ہوجائيں ،
    کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    روزہ اسی دن ہے جس دن تم روزہ رکھو ، اورعید اس دن ہے جس دن تم عید کرو ) ۔



    اوراگر اس کے روزے انتیس سے بھی کم ہوجائيں توعید کے بعد اسے انتیس کرنا ہوں گے
    کیونکہ ھجری مہینہ انتیس یوم سے کم نہيں ہوتا ۔



    دیکھیں فتاوی الشیخ عبدالعزيز بن باز فتاوی الصیام طبع دار الوطن صفحہ نمبر (
    15 - 16
    ) ۔



    مریض :






    25
    - ہروہ مرض جس کی وجہ سے انسان صحت کی تعریف سے خارج ہوجائے اس کی وجہ سے روزہ
    افطار کرنا جائز ہے ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :


    {
    جو کوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسروں دنوں میں گنتی پوری کریں }



    لیکن ہلکی پھلکی بیماری مثلا زکام ، اورسردرد ، وغیرہ کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز
    نہیں ۔



    جب طبی طور پر یہ علم ہویا پھر کسی شخص کی عادت یا تجربہ کی وجہ سے یا پھر اس کا ظن
    غالب ہو کہ روزہ رکھنے سے مریض ہونے یا مرض میں زيادتی یا پھر مرض سے شفایابی میں
    تاخير کا باعث ہوگا تواس کےلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا
    مکروہ ہے ۔



    اوراگرمرض زيادہ ہو تو مریض پر واجب نہيں کہ وہ رات کو روزے کی نیت نہ کرے چاہے یہ
    احتمال ہو کہ وہ صبح تک صحیح ہوجائے گا ،کیونکہ معتبر تو موجودہ وقت ہے نہ کہ
    مستقبل ۔


    26
    - اوراگر روزہ رکھنا اس کے لیے بے ہوشی کا سبب بنتا ہو تواسے روزہ افطار کرنے کی
    اجازت ہے اوراس کےبدلے وہ قضا میں روزہ رکھے گا ۔



    دیکھیں مجموع الفتاوی (
    25 /
    217
    ) ۔



    اورجب کوئي روزہ دار روزہ کی حالت میں بے ہوش ہوجائے اورمغرب سے قبل یا پھر مغرب کے
    بعد ہوش میں آئے تواس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے روزہ رکھا تھا ، اوراگر وہ
    فجر سے لیکر مغرب تک بے ہوش رہے توجمہور علماء کرام کے ہاں اس کا روزہ صحیح نہيں ۔



    اوربے ہوشی والے شخص پر جمہور علماء کے نزدیک بھی قضاء واجب ہے چاہے یہ بے ہوشی
    جتنی بھی طویل ہو ۔



    دیکھیں : المغنی مع الشرح الکبیر (
    1 / 412
    ) (
    3 / 32
    ) اورالموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ (
    5 / 268
    ) ۔






    بعض اہل علم کا فتوی ہے کہ : جوکوئي بے ہوش ہوجائے یا اسے کسی مصلحت کی بنا پرنیند
    کی دوائی دی جائے یا اسے سن کردیا جائے جس کی بنا پر اسے ہوش نہ رہے لھذا اگرتواس
    کی یہ حالت تین یا اس سے کم ایام ہوں تووہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے قضاء کرے گا
    ، لیکن اگر تین ایام سے زيادہ بے ہوش رہے تو مجنون پر قیاس کرتے ہوئے قضاء کرے گا ۔



    شیخ عبدالعزیزبن باز رحمہ اللہ تعالی کا بالمشافھہ فتوی ۔


    26
    - جس شخص کوبہت زیادہ بھوک کمزور کردے یا شدید قسم کی پیاس نڈھال کردے جس کی بنا
    پر اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہو یا ظن غالب کی بنا پریہ خدشہ ہوکہ اس کے ہوش وحواس
    قائم نہيں رہيں گے تواس حالت میں وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے ، کیونکہ نفس کو بچانا واجب
    ہے ، لیکن جب وہم ہو تو پھر نہيں ۔



    لیکن صرف شدت یا تھکاوٹ اورمرض کے خوف اوراحتمال کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہيں ،
    اورجولوگ مشقت والے کام کرتے ہیں انہیں اپنے کام کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ،
    انہیں چاہیے کہ وہ رات کو ہی روزہ کی نیت کریں ،اوردن میں اگر انہیں روزہ نقصان دے
    اوران سے برداشت نہ ہوسکے یا پھر انہیں اپنے ہلاک ہونے کا خدشہ ہویا اس کی وجہ سے
    زيادہ مشقت کے شکار ہوں جس کی بنا پروہ روزہ افطار کرنے پر مجبور ہوجائيں توپھر وہ
    اپنی مشقت دور کرنے کے لیے افطار کرسکتے ہیں اوراتنا ہی کھائيں جوان کی قوت بحال
    کرے اورپھر باقی دن انہيں کھانے پینے سے پرہيز کرنا ہوگي ، اور اس دن کی بعد میں
    قضاء ادا کريں گے ۔



    وہ مزدور جو لوہے وغیرہ کی بھٹیوں پر معدنیات پگلانے کا کام کرتے ہیں جس کی بنا پر
    وہ روزہ برداشت نہيں کرسکتے انہيں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کام رات کےوقت کریں ، یا
    پھر رمضان میں چھٹیاں حاصل کرلیں اگرچہ یہ چھٹیاں بغیر تنخواہ ہی حاصل ہوں ، لیکن
    اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے توانہيں کوئي اورکام تلاش کرنا چاہیے جس میں دینی اوردنیاوی
    واجبات کوجمع کیا جاسکے ، کیونکہ جو شخص بھی اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتا ہے
    اللہ تعالی اس کےلیے کوئي راستہ نکال دیتا ہے ، اوراسے رزق بھی وہاں سے دیتا ہے
    جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہيں ہوتا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدئمۃ (
    10 / 233 - 235
    ) ۔




    اورطلاب کے لیے امتحانات ایسا عذر نہيں کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرلیا جائے ،
    اوراسی طرح روزہ چھوڑنے میں بھی والدین کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں
    کو امتحان کی بنا پر روزہ رکھنے سے منع کریں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی
    میں مخلو‍ق کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ۔



    دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (
    10 / 241
    ) ۔



    28
    - جس مریض کی شفایابی کی امید ہو وہ اپنی شفایابی کا انتظار کرے اورصحت بحال ہونے
    کےبعد قضاء میں روزے رکھے گا ، اسے صرف کھانا ہی کھلانا ہی کافی نہیں ہوگا ، اور وہ
    مریض جس کی مرض دائمی ہواوراس کی شفایابی کی امید نہ ہواوراسی طرح وہ بوڑھا جوعاجز
    ہووہ بھی ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے جوعادی غلہ میں سے نصف صاع
    بنتی ہے ( موجود تول کے مطابق تقریبا ڈیڑھ کلو چاول ) ۔



    یہ بھی جائز ہے کہ وہ سارا فدیہ اکٹھا کرے اورمہینہ کے آخر میں مساکین کو کھلائے یا
    پھر ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے ، اس پر واجب ہے کہ آیت پرعمل کرتے ہوئے مسکین
    کو غلہ دے کسی بھی مسکین کو نقد رقم دینے سے ادائيگي نہيں ہوگي ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (
    10 / 198
    ) ۔




    یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی ثقہ تنظیم کو کھانا خرید کر تقسیم کرنے پر وکیل بناتے
    ہوئے نقد رقم ادا کرے کہ وہ غلہ خرید کر اس کی جانب سےمساکین میں تقسیم کردے ۔



    وہ مریض جس نےرمضان میں روزے چھوڑے اورقضاء کے لیے شفایابی کے انتظار میں تھا پھر
    اسے یہ علم ہوا کہ اس کا مرض دائمی ہے اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ ہر دن کے
    بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی سے
    لیا گيا ۔



    اورشفایابی کی امید والے مرض والا مریض اگراپنی بیماری میں ہی چل بسے تواس صورت میں
    نہ تواس پراورنہ ہی اس کے اولیاء پر کچھ ہے ، اورایسا مریض جوکسی دائمی مرض میں
    مبتلاتھااوراس نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ مساکین کوادا کردیا ، لیکن کچھ مدت
    بعد طب میں اس کا علاج دریافت کرلیاگيا ، اوروہ اس علاج کےذریعہ شفایاب ہوگيا تواس
    پر گزشتہ روزوں کی کوئي چيز واجب نہيں کیونکہ اس نے اپنے واجب کردہ کو ادا کردیا
    تھا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (
    10 / 195
    ) ۔



    29
    - وہ مریض جوشفایابی حاصل کرسکنے اورقضاء کی استطاعت کے باوجود بھی روزے قضاء نہ
    رکھ سکا اوراس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تواس کے مال سے ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو
    کھانا دیا جائے گا ۔



    اوراگر اس کے اقرباء میں سے کوئي اس کی جانب سے روزہ رکھنا چاہے تووہ رکھ سکتا ہے
    اوروہ روزہ صحیح ہوگا کیونکہ صحیحین میں روایت ہے کہ :



    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    جوکوئي فوت ہوجائے اوراس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا
    ) ۔



    دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ بحوالہ مجلہ الدعوۃ ( عربی ) (
    806
    ) ۔





    عاجز اوربوڑھا شخص






    30
    - بوڑھا اورقریب الموت شخص جس کی تمام طاقت ختم ہوچکی ہو اورہردن وہ موت کے قریب
    ہورہا ہو اورکمزوری بڑھتی چلی جائے اس پرروزے رکھنے لازم نہیں ، بلکہ ان دونوں کے
    لیے روزہ چھوڑنا جائز ہیں کیونکہ روزہ رکھنے میں ان کے لیے مشقت ہے ۔



    ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذیل آیت کے بارہ میں کہا کرتے تھے :



    {
    اوران لوگوں پرجواس کی طاقت نہيں رکھتے ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے } ۔



    ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہيں بلکہ بوڑے مرد
    اورعورت کےلیے ہیں جوروزہ رکھنے کی طاقت نہيں رکھتے بلکہ وہ ہردن کے بدلے میں ایک
    مسکین کو کھانا کھلائيں گے ۔



    دیکھیں صحیح بخاری کتاب التفسیر باب ایام معدودات ۔۔



    اورایسا شخص جوکسی میں تمیز ہی نہ کرسکے اوربے وقوفی کی حدتک جا پہنچے تو اس پر
    اوراس کے گھروالوں پر کچھ نہيں کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں رہا ، اوراگر بعض اوقات وہ
    تمیز کرتا ہو اوربعض اوقات ھذیان کی حالت ہو اورعقل فاسد ہوجاتی ہو توتمیز کی حالت
    میں روزہ واجب ہوگا ، لیکن حالت ھذیان میں روزہ واجب نہيں ۔



    دیکھیں : مجالس شھر رمضان للشيخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی (
    28
    )



    31
    - جودشمن سے جنگ کررہا یا دشمن نے اس کے ملک کا گھیراؤ کرلیا ہو اوراسے خدشہ ہو کہ
    روزہ اسے لڑائي سے کمزور کردے گا تواس لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، چاہے وہ سفر
    میں نہ بھی ہو ، اور اسی طرح اگر اسے لڑائي سے قبل روزہ افطار کرنے کی ضرورت ہو
    تووہ افطار کرسکتا ہے ۔



    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو لڑائي سے قبل فرمایا تھا :



    (
    تم صبح دشمن کا مقابلہ کرنے والے ہو لھذا روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زيادہ طاقت کا
    با‏عث ہوگا توصحابہ کرام نے روزہ نہ رکھا ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
    1120
    ) طبع عبدالباقی ۔




    اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے اوراہل شام
    کو اسی کا فتوی دیا تھا کیونکہ تتاریوں نے جب شامیوں پر حملہ کیا تو شیخ الاسلام
    وہیں تھے اوریہی فتوی جاری کیا ۔


    32
    - جس کے روزہ نہ رکھنے کا سبب ظاہر ہومثلا مریض تواس کےلیے بھی ظاہری روزہ نہ
    رکھنے میں کوئي حرج نہيں ، جس کا سبب مخفی ہو مثلا حيض تواس کے لیے اولی اوربہتر ہے
    کہ وہ روزہ بھی خفیہ ہی افطار کرے تا کہ اسے تہمت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔




    روزے کی نیت :





    33
    - فرضی روزے میں نیت کی شرط ہے اوراسی طرح ہر واجبی روزے میں بھی نیت کی شرط ہے
    مثلا قضاء ، اورکفارہ وغیرہ کے روزے اس لیے کہ حدیث میں فرمان نبوی ہے :


    (
    جس نے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہيں ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر (
    2454
    ) امام بخاری وامام نسائی اورامام ترمذی رغیرہ نے تلخیص الحبیر (
    2 / 188
    ) میں موقوف کہا ہے ۔




    رات کےکسی حصہ میں نیت کرنا جائز ہے چاہے فجر سے ایک لحظہ قبل ہی کرلی جائے ،
    اورنیت یہ ہے کہ کسی فعل پر دل کا عزم کرنا نیت کہلاتا ہے ۔



    نیت کے الفاظ کی ادائيگي بدعت ہے ، جسے یہ علم ہوکہ صبح رمضان ہے اوروہ روزہ رکھنے
    کا ارادہ بھی کرے تویہی اس کی نیت ہے ۔



    دیکھیں مجموع فتاوی شیخ الاسلام (
    25 / 215
    ) ۔




    جس نے دن کے وقت روزہ افطار کرنے کی نیت کی لیکن افطار نہ کیا توراجح یہی ہے کہ اس
    کا روزہ صحیح ہے فاسد نہيں ہوا ، بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئي شخص نماز میں کلام
    کرنے کا ارادہ کرے لیکن کلام نہ کرے تواس کی نماز صحیح ہوگي ۔



    بعض اہل علم کا کہتے ہيں کہ صرف نیت ختم کرنے سےہی اس کا روزہ ختم ہوجائے گا ، لھذا
    احتیاط یہ ہے کہ اس کی قضاء ادا کی جائے ، لیکن ارتداد کی وجہ سے بلاخلاف نیت ختم
    ہوجاتی ہے ۔



    رمضان کے روزے رکھنے والا ہررات تجدید نیت کا محتاج نہيں بلکہ رمضان کے شروع میں ہی
    نیت کافی ہے ، لیکن اگرسفر یا کسی مرض کی بنا پر نیت ختم کردے توپھر عذر زائل ہونے
    کی صورت میں اسے تجدید نیت کرنا ہوگي ۔


    34
    - نفلی روزہ میں مطلقا شرط نہيں کہ رات کو نیت کی جائے کیونکہ حدیث میں ہے :



    عا‏‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن
    گھرمیں داخل ہوئے اور فرمانے لگے کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو ہم نے جواب دیا کچھ نہيں
    ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے پھر میں روزہ سےہوں ۔



    صحیح مسلم حدیث نمبر (
    2 / 809
    ) عبدالباقی ۔



    لیکن معین نفلی روزہ مثلا یوم عرفہ ، اورعاشوراء ، میں احتیاط یہ ہے کہ رات کو نیت
    کی جائے ۔


    35
    - جوشخص واجب روزہ کو شروع کردے مثلا قضاء اورنذر اورکفارہ وغیرہ اسے مکمل کرنا
    ضروری ہے ، اوراس میں بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ، لیکن نفلی روزے
    میں اسے اختیارہے کہ وہ افطار کرلے یا نہ کرے حدیث میں ہے :


    (
    نفلی روزے والا اپنے آپ کا امیر ہے چاہے وہ روزہ رکھے اورچاہے تو افطار کرلے )
    مسند احمد (
    6 / 342
    )



    نفلی روزہ والا بغیر کسی عذر بھی روزہ افطار کرسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم
    بھی ایک بار روزہ سے تھے پھر بغیر کسی عذر کے کھا لیا جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث
    ہے :



    عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں
    آئے تو کہنے لگے کچھ کھانے کو ہے ہم نے کہا کچھ نہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے
    لگے میرا روزہ ہے ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے بعد میں
    بطور ھدیہ چوری لائي گئی ، بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو
    میں نے کہا کہ کچھ ہدیہ آیا ہے



    اوراس میں سے میں نے کچھ آپ کے لیے چھپا کررکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ کہنے لگے میں
    نے صبح روزہ رکھا تھا لاؤ توآپ نے وہ تناول فرمالیا ۔



    صحیح مسلم حدیث نمبر (
    1154
    )



    لیکن سوال یہ ہے کہ آیا بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کرنے والے کوکچھ وقت کا ثواب
    ہوگا ؟ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اسے ثواب نہيں ہوتا ۔ دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ (
    28 / 13
    ) ۔



    نفلی روزہ رکھنے والے کےلیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ پورا کرے لیکن اگر اس
    کے ختم کرنے میں کوئي شرعی مصلحت پائي جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔


    36
    - جس شخص کو طلوع فجر کے بعد ماہ رمضان شروع ہونے کا علم ہوتووہ اس دن کھانے پینے
    سے پرہيز کرے اوراس کے بدلے میں جمہور علماء کے مطابق قضاء کرنا ہوگي ، کیونکہ نبی
    صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    رات کونیت نہ کرنے والے کا روزہ نہیں ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر (
    2454
    ) ۔



    37
    - قیدی اورمحبوس شخص بھی اگر چاند دیکھ لے یا اسے کسی ثقہ شخص کے ذریعہ رمضان شروع
    ہونے کا علم ہوتواس پر بھی روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگر اسے علم نہ ہوسکے تووہ
    ظن غالب کے مطابق اجتھاد کرتا ہوا روزے رکھے اگر تواس کا روزہ رمضان کے موافق
    ہوتوجمہور علماء کے ہاں یہ روزہ ادا ہوجائے گا ۔



    اوراگر اس کا روزہ رمضان کے بعد ہوا توجمہور فقھاء کے ہاں یہ روزہ ہوجائے گا ،
    اوراگر رمضان سے قبل ہوا تو کافی نہيں بلکہ اسے قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، اوراگر
    محبوس شخص کے کچھ روزے رمضان میں ہوں اورکچھ رمضان کے بعد تورمضان اوراس کے بعد
    رکھے ہوئے روزے کافی ہیں لیکن رمضان سے قبل رکھے گئے روزے کافی نہیں ہونگے ۔



    اوراگر اشکال اسی طرح رہے اوراسے رمضان کا علم نہ ہوسکے تواس کے لیے یہ روزے کفائت
    کرجائيں گے کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کی ہے ، اوراللہ تعالی بھی کسی
    کواس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔



    دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ (
    28 / 84
    ) ۔



    سحری اورافطاری


    38
    - جب سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے توروزے دار کا روزہ افطار ہوجاتا ہے افطاری میں افق
    پر سرخی باقی رہنا معتبر نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


    (
    جب اس طرف سے رات آجائے اورادھرسے دن چلا جائے اورسورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا
    روزہ افطار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
    1954
    ) مجموع الفتاوی میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے (
    25 / 216
    ) ۔





    افطاری میں سنت یہ ہے کہ افطاری جلدی کی جائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب
    سے قبل ہی افطاری کرتے تھے چاہے پانی پی کرہی کرلیں ۔ مستدرک الحاکم (
    1 / 432
    ) السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی (
    2110
    ) ۔





    اگر روزہ دار کو افطاری کے لیے کوئي چيز نہ مل سکے تواسے دل سے ہی افطاری کی نیت
    کرلینی چاہیے ، لیکن اسے اپنی انگلی نہيں چوسنی چاہیے جیسا کہ بعض روزہ دار کرتے
    بھی ہیں ، افطاری میں وقت سے پہلے افطاری کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا قابل
    سزا ہے ۔



    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکا ہوا دیکھا کہ ان کی
    باچھیں کٹی ہوئي اوران سے خون بہہ رہا ہے ، جب ان کے بارہ میں فرشتوں سے پوچھا تو
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ افطاری کے وقت سے قبل ہی روزہ
    افطارکرلیتے تھے ۔



    مندرجہ بالا حدیث صحیح ابن خزيمہ (
    1986
    ) اورصحیح الترغیب میں (
    1 /
    420
    ) موجود ہے ۔




    جسے یہ یقین ہوجائے یا پھر اس کا ظن غالب یا شک ہوکہ اس نے مغرب سے قبل ہی افطاری
    کرلی ہے تواسے ایک روزہ کی قضاء کرنا ہوگي اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ دن باقی تھا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (
    10 / 287
    ) ۔




    بچوں کے باتوں اورغیرموثوق خـبروں سے بچنا چاہیے ، اوراسی طرح شہروں اور بستیوں کے
    مابین وقت کے فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ، یہ نہیں کہ ریڈیوں کی اذان پر
    ہی افطاری کرلی جائے ۔


    39
    - جب طلوع فجر جو کہ مشرقی جانب ایک چوڑی سفیدی سی پھیلتی ہے ہوجائے توروزہ دار کو
    چاہیے کہ وہ کھانا پینا بند کردے یعنی سحری کا وقت ختم ہوجائے گا ، چاہے اس نے اذان
    سنی ہویا نہ سن سکے ، اوراسی طرح جب یہ علم ہو کہ مؤذن فجر کی اذان طلوع فجر سے قبل
    ہی کہتا ہے تو کھانا پینا بند کرنا واجب نہیں ۔



    اوراگر مؤذن کے بارہ میں علم نہ ہو یا پھر اذانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اورخود
    بھی طلوع فجرمعلوم نہ کرسکتا ہو - جیسا کہ روشنی کی بنا پر شہروں میں ہوتا ہے -
    توپھر اس صورت ميں اسے چھپے ہوئے کیلنڈروں کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن جب ان میں
    بھی واضح غلطی ہو تو پھر نہيں ۔



    لیکن سحری بند ہونے سے دس منٹ یا اس سے کم وزائد قبل ہی احتیاطا کھانا پینا بند
    کرنا بدعت ہے ، اورکچھ کیلنڈروں میں سحری بند ہونے کا وقت کچھ اورطلوع فجر کا وقت
    کچھ لکھا ہوتا ہے یہ ایسا معاملہ ہے جو شریعت سے متصادم ہے ۔


    40
    - ان ممالک میں جہاں پر دن اوررات چوبیس گھنٹوں میں ہوتی ہے مسلمانوں پر روزہ
    رکھنا فرض ہے چاہے دن جتنا بھی لمبا ہوجائے جب تک دن اور رات میں تمیز باقی ہے وہ
    روزہ رکھیں ، اورجن ممالک میں دن اوررات میں تمیز ممکن نہيں وہ اپنے قریب ترین
    ممالک جہاں پر دن اوررات مین تمیز ہو کے مطابق عمل کریں گے ۔




    روزہ توڑنے والی اشیاء



    حیض اورنفاس کے علاوہ جتنی بھی روزہ توڑنے والی اشیاء ہیں ان سے روزہ دار کا روزہ
    اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس میں تین شرطیں پائي جائیں :



    وہ علم رکھتا اورجاہل نہ ہو ، اسے یاد ہوبھول کرنہیں ، مختار ہو مجبور اورمضطر نہ
    ہو ۔



    روزہ توڑنے والی کچھ اشیاء تو استفراغ یعنی نکلنے سے تعلق رکھتی ہیں : مثلا جماع ،
    جان بوجھ کر قئي کرنا ، حیض ، سنگی و پچھنے لگوانا ،



    اورکچھ کا تعلق امتلاء یعنی بھرنےاورکھانے سے تعلق رکھتی ہيں مثلا کھانا پینا۔
    دیکھیں مجموع الفتاوی (
    25 /
    248
    ) ۔


    42
    - روزہ توڑنے والی کچھ اشیاء کھانے پینے کے معنی میں آتی ہیں : مثلا ادویات ، اور
    کھائي جانے والی گولیاں ، اورغذائي ٹیکے ، اوراسی طرح خون لگوانا اورخون دینا ۔



    لیکن وہ انجیکشن جو کھانے پینے کے عوض میں نہیں آتے بلکہ صرف بطور علاج استعمال
    ہوتے ہیں مثلا پنسلین ، اورانسولین یا پھر جسم کو نشیط رکھنے کے لیے یا وبائي امراض
    کے ٹیکے لگوانا یہ سب روزے کو نقصان نہيں دیتے چاہے یہ گوشت میں لگائے جائيں یا نس
    میں ۔



    دیکھیں فتاوی ابن ابراہیم (
    4
    / 189
    ) ۔



    لیکن احتیاط یہ ہے کہ یہ سب انجیکشن بھی رات کےوقت لگائے جائيں ، اوراسی طرح گردہ
    کی صفائي جو خون کے اخراج کا باعث ہو تا کہ خون بھی صاف کیا جاسکے اورصفائي کے بعد
    اس میں کچھ کیمائي مواد ( مثلا نمکیات اورشوگر ) کا اضافہ کرکے دوبارہ لگایا جائے
    تویہ سب کچھ روزہ کو توڑنے والا شمار ہوگا ۔





    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (
    10 / 190
    ) ۔

    راجح یہی ہے کہ انیمہ وغیرہ کرانا اورآنکھوں اورکانوں میں قطرے ٹپکانا ، دانت
    نکلوانا ، اورزخموں کی مرہم پٹی کروانا ان سب سے روزہ نہيں ٹوٹتا ۔ دیکھیں : مجموع
    الفتاوی شیخ الاسلام (
    25 /
    233
    ) ۔



    دمہ کے لیے سپرے کا استمعال روزہ کو نقصان نہيں دیتا کیونکہ یہ گیس ہوتی ہے جو صرف
    پھیپھڑوں میں جاتی ہے اورکھانا نہيں ، اورپھر مريض اس کا رمضان اورغیررمضان میں ہر
    وقت محتاج رہتا ہے ، اوراسی طرح ٹیسٹ کے لیے خون نکالنا بھی روزے کو فاسد نہيں کرتا
    بلکہ ضرورت کی بناپر اس سے معاف ہے ۔ دیکھیں فتاوی الدعوۃ : ابن باز مجلہ الدعوۃ
    عدد نمبر (
    979
    ) ۔



    غرغرہ والی داوئي کو اگر نگلا نہ جائے تو وہ بھی روزے کو کچھ نقصان نہيں دیتی ،
    اورجس کے دانت میں طبی سوراخ یعنی کھوڑ بھری جائے جس کا ذائقہ حلق میں بھی محسوس ہو
    تویہ بھی اس کے روزے کو نقصان نہيں دیتی ۔



    فتاوی الشیخ عبدالعزيز بن باز ، یہ فتوی بالمشافھہ لیا گيا ۔

    الحلاجي محمد
    الحلاجي محمد
    Servo di Allah


    Sesso : ذكر

    Numero di messaggi : 6998

    روزوں کے ستر 70مسائل Empty رد: روزوں کے ستر 70مسائل

    مُساهمة من طرف الحلاجي محمد الأربعاء 8 يونيو - 19:38:55



    مندرجہ ذيل امور روزہ کو کوئي نقصان نہیں دیتے :





    1
    - کان کی صفا‏ئي ۔ ناک میں قطرے ٹپکانا ، یا ناک کے لیے سپرے ، ان میں سے اگرکوئي
    چيز بھی حلق میں پہنچے تو اسے نگلا نہيں جائے گا ۔


    2-
    سینہ کے امراض کے لیے زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیوں کا استعمال ، جب کہ حلق
    میں جانے والی چيز کو نگلا نہ جائے ۔


    3

    - رحم کی صفائي وغیرہ کے لیے بتی یا کوئی آلہ داخل کرنا ۔


    4
    - رحم میں طبی آلات داخل کرنا ۔


    5
    - پیشاب کی نالی میں داخل ہونے والی اشیاہ کا استعمال : یعنی مثانہ کی صفائي کے
    لیے محلول داخل کرنا ، یا ایکسرے کے لیے کوئي مادہ یا کوئي اورآلہ داخل کرنا ۔


    6
    - دانت میں کھوڑ ، داڑھ نکالنا ، دانتوں کی صفائي ، مسواک یا ٹوتھ برش کا استعمال
    ، لیکن حلق میں جانے والی چيز کونگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دیں ۔


    7
    - کلی اورغرارے کرنا ، سپرے کا استعمال ان میں بھی حلق میں جانے والی چيز کو نگلا
    نہيں جائے ۔


    8
    - جلدی علاج کے انجیکشن ، عضلاتی ، اور وریدی انجیکشن ، لیکن اس میں غذائي
    انجیکشن اورڈرپ شامل نہيں کیونکہ اس سے روزہ ختم ہوجاتا ہے ۔


    9
    - آکسیجن گیس کا استعمال ۔


    10
    - سن کرنے والی گیسیں ، جب تک مریض کوغذائي محلول نہ دیے جائیں ۔


    11
    - جلد میں جذب ہوکر داخل ہونے والی اشیاء مثلا تیل ، اورمرہم اوراسی طرح جلدی علاج
    کی پٹیاں جن پر کیمائي اوردوائي مواد لگا ہوتا ہے ۔


    12
    - علاج یا تصویر کےلیے دل اوردوسرے اعضاء کی شریانوں میں باریک نالی داخل کرنا ۔


    13
    - پیٹ کے چمڑے کے ذریعہ انتڑیوں وغیرہ کے چیک اپ کےلیے کوئي آلہ داخل کرنا یا پھر
    کوئي جراحی عمل کروانا ۔


    14
    - جگر یا دوسرے ا‏عضاء کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ لینا ، لیکن جب اس میں کوئي محلول نہ
    دیا جائے ۔


    15
    - معدہ میں کوئي آلہ داخل کرنا جب کہ اس میں کوئي محلول نہ دیا گیا ہو ۔


    16
    - دماغ میں کوئي آلہ یا پھر علاج کے لیے مواد داخل کرنا ۔


    43
    - جس نے بھی رمضان کےروزے کی حالت میں بغیرکسی عذر کے جان بوجھ کر کھاپی لیا وہ
    کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ، اسے اس پر توبہ کرنا ہوگي اوراس کی قضاء میں روزہ بھی
    رکھے گا ۔



    اوراگر اس نے اپنا روزہ کسی حرام چيز سے توڑا مثلا کسی نشہ آور چيز سے تواس نے اس
    کبیرہ گناہ میں اورشنیح اورقبیح کام کا اضافہ کرلیا ، بہر حال اسے توبہ کرنا ہوگی
    اورکثرت سے نوافل اوراستغفار کرے اورنفلی روزے بھی رکھے تا کہ فرضی روزوں کے نقصان
    کو پورا کرسکے ، ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرلے ۔


    44
    - جب کوئي بھول کر کھا پی لے تو اسے روزہ پورا کرنا چاہیے کیونکہ اسے اللہ تعالی
    نے کھلایا پلایا ہے ۔



    صحیح بخاری حدیث نمبر (
    1933
    ) ۔



    اورایک روایت میں ہے کہ : ( اس پرنہ تو کفارہ ہے اورنہ ہی قضاء )



    جب کوئي کسی کوروزہ کی حالت میں بھول کرکھاتا پیتا دیکھے تواسے اللہ تعالی کے
    مندرجہ ذيل فرمان کے عموم پر عمل کرتے ہوئے یاد دہانی کروانی چاہیے :


    {
    تم نیکی اوربھلائی اورتقوی میں ایک دوسرے کاتعاون کیا کرو }



    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا فرمان ہے :


    (
    جب میں بھول جایا کروں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ) ۔



    اوراصل بات تو یہ ہے کہ یہ ایک برائي ہے جسے بدلنا واجب ہے ۔ مجالس شھر رمضان : ابن
    ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی (
    70
    ) ۔


    45
    - اگرکوئي شخص کسی معصوم کو بچانے کے لیے روزہ توڑنے کا محتاج ہو تووہ روزہ توڑ دے
    گا ، جیسا کہ غرق ہونے والوں یا پھر آگ میں پھنسے ہوئے اشخاص کو بچانا مقصود ہو ۔


    46
    - جس شخص پر روزے فرض ہیں اوراس نے رمضان میں دن کے وقت عمدا اوراپنے اختیار سے
    جماع کرلیا کہ دونوں شرمگاہیں ایک مل جائيں اورقبل یا دبر میں دخول ہوجائے تواس نے
    اپنا روزہ فاسد کرلیا چاہے انزال ہویا نہ ہو ، ایسے شخص کو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ
    اس دن کی قضاء اورکفارہ مغلظہ دینا ہوگا جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں ہے :




    ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
    بیٹھے ہوئے تھے توایک شخص آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا : میں تباہ ہوگیا
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا ہوا ہے ؟



    وہ کہنے لگا میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کربیٹھا ہوں ، رسول اکرم صلی
    اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :



    کیا غلام آزاد کرسکتے ہو؟ وہ کہنےلگا نہيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    کیا دوماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس شخص نے کہا نہيں ، رسول اکرم صلی اللہ
    علیہ وسلم نے فرمایا :



    کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا میں یہ بھی نہيں کرسکتا ،
    ۔۔۔۔۔



    صحیح بخاری حدیث نمبر (
    1936
    ) ۔



    زنا اورلواطت ( یعنی لونڈے بازی ) اورجانوروں سے برافعل کرنے کا ایک ہی حکم ہے ۔



    اورجس نے رمضان میں کئی ایام دن کے وقت جماع کیا تواس پر ان ایام کی تعداد کے مطابق
    ہی کفارہ ہوگا جس میں اس نے جماع کیا تھا اوران ایام کی قضاء بھی کرنا ہوگی ، کفارہ
    کے وجوب سے جاہل ہونے کو عذر تسلیم نہيں کیا جائے گا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (

    10 / 321
    ) ۔


    47
    - اگر کسی شخص نے بیوی سےجماع کرنا چاہا اور جماع سے پہلے کچھ کھا کر روزہ افطار
    کیا تواس کی معصیت اورگناہ زيادہ شدید ہے ،کیونکہ اس نے رمضان کی حرمت کو دو بار
    پامال کیا ، ایک تو کھا کر اوردوسرا جماع کرکے ، اس شخص پر بھی کفارہ مغلظ ہوگا ،
    اس کا حیلہ بھی اس پروبال ہوگا اوراس پر سچی توبہ کرنا واجب ہے ۔



    دیکھیں : مجموع الفتاوی (
    25 /
    262
    ) ۔


    48
    - اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے والے شخص کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی سے معانقہ ، اس کا
    بوسہ لینا ، چھونا ، اورباربار اسے دیکھنا جائز ہے ، اس کی دلیل صحیحین کی مندرجہ
    ذيل حدیث میں پائي جاتی ہے :



    عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی
    حالت میں میرا بوسہ لیتے اورمجھ سے مباشرت کرتے ، لیکن انہيں تم سے زيادہ اپنے آپ
    پر کنٹرول تھا ۔



    اوروہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ :



    وہ میری وجہ سے اپنی بیوی کو چھوڑتا ہے ۔



    اس حدیث سے مراد بیوی سے جماع ہے ، لیکن جب کوئي شخص شھوت پر کنٹرول نہ کرسکتا ہو
    اس کے لیے بوسہ وکنار کرنا جائز نہیں اس لیے کہ ایسا کرنا روزے کوفاسد کردے گا ،
    اورانزال اورجماع جیسے کام سے رک نہيں سکے گا ، اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا
    ہے :


    (
    میری وجہ سے اپنی شھوت ترک کردیتا ہے ) ۔



    اورشرعی قاعدہ ہے کہ جوچيز بھی کسی حرام کا وسیلہ بنے وہ چيز بھی حرام ہوتی ہے ۔


    49
    - جب بیوی سے جماع کررہا ہو اورطلوع فجر ہوجائے تو اسے فورا جماع سے رک جانا چاہیے
    ، اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہوگا چاہے جماع سے رکنے کے بعد ہی منی کا انزال ہو ،
    لیکن اگر طلوع فجر کے بعد بھی جماع میں مشغول رہے تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ، لھذا
    اس پر اس روزہ کی قضاء اورکفارہ مغلظہ واجب ہوگا ۔


    50
    - اگر جنبی حالت میں ہی صبح ہوجائے تو روزہ صحیح ہے ، غسل جنابت اورحیض اورنفاس کے
    غسل میں طلوع فجر کے بعد تک تاخیر کرنا جائز ہے ، لیکن اسے غسل کرنے میں جلدی کرنی
    چاہیے تاکہ نماز ادا کرسکے ۔


    51
    - اگر سوتے ہوئے روزے دار کو احتلام ہوجائے تو اس سےبالاجماع روزہ فاسد نہيں ہوگا
    ، بلکہ روزہ مکمل کرنا چاہیے ، اوراسی طرح غسل میں تاخیر بھی روزہ کو کوئي ضرر نہيں
    دے گی لیکن غسل جلدی کرنا چاہیے تا کہ نماز کی ادائيگي وقت پر ہوسکے اور فرشتے بھی
    اس کےقریب آسکیں ۔


    52
    - جس نے روزے کی حالت میں کسی چيز سے منی کا اخراج کیا مثلا چھونے اوربار بار
    دیکھنے سے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا اورباقی سارا دن بغیر کھائے پیۓ گذارے اوربعد
    میں اس کی قضاء کے ساتھ توبہ بھی کرنا ہوگي ۔



    اوراگر مشت زنی کرنے لگے پھر اس انزال سے قبل ہی رک جائے تواس پر اسے توبہ کرنی
    چاہیے اورانزال نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔



    روزے دار کو شھوت میں انگیخت کرنے والی چيز سے اجتناب کرنا چاہیے ، اورگندے اورردی
    قسم کے خیالات کو بھی خاطر میں نہيں لانا چاہیے ، مذی کے خروج میں راجح مسلک یہی ہے
    کہ اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا ، اورپیشاب کے بعد لذت کے بغیر نکلنے والے ودی کے قطرے
    بھی روزے کو کوئي نقصان نہيں دیتے اور نہ ہی غسل واجب ہوتا ہے بلکہ اس کے بعد
    استنجاء اوروضوء کرنا واجب ہے ۔



    دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء (

    10 / 279
    ) ۔


    53
    - جسے خود ہی قئي آئے اس پرقضاء نہيں ، لیکن جوعمدا قئي کرے اس پر قضاء ہوگی ۔



    دیکھیں صحیح سنن ترمذی (
    3
    /89
    ) ۔



    جس شخص نے حلق میں انگلی ڈال کریا پھر پیٹ دبا کر قئي کی یا جان بوجھ کرکوئي کراہت
    والی چيز سونگے یا قئي لانے والی چيز کومسلسل دیکھتا رہے جس کی بنا پر قئي آجائے
    تواسے قضاء ادا کرنا ہوگي ، اوراگر اس پر قئي غالب آگئي اورخود بخود ہی رکنے پر
    قضاء واجب نہيں کیونکہ اس میں اس کا ارادہ شامل نہيں ، اوراگر اس نے اسے واپس کردیا
    تو قضاء ہوگي ۔



    اورجب اس کے معدہ میں ھیجان پیدا ہوتواس سے قئي روکنا لازم نہيں کیونکہ ایسا کرنا
    اس کے لیے نقصان دہ ہے ۔



    دیکھیں مجالس شھر رمضان : ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی (

    67
    ) ۔



    اگر دانتوں میں پھنسی ہوئي چيز بغیرقصد کے نگلی جائے ، یا بالکل قلیل ہونے کے باعث
    اس میں تمیز کرنا اورچبانا مشکل تھا اسے تھوک کے تابع سمجھا جائے گا اس سے روزہ
    نہیں ٹوٹتا ۔



    اوراگر زيادہ ہو اوراس کا پھینکنا ممکن ہو لھذا اس کے پھینکنے پر کچھ نہیں لیکن
    اگرجان بوجھ کر نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا ۔



    دیکھیں المغنی لابن قدامہ (
    4 / 47
    ) ۔



    اوراگرچگالی یعنی جبڑے کی ورزش کے لیے حرکت دینے کے لیے کوئي چيز چبانے میں ذائقہ
    یا مٹھاس ہو تواس کا چبانا حرام ہے ، اوراگر حلق تک جا پہنچے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے
    گا ۔



    جب کلی کرنے کے بعد پانی نکال دیا جائے اورباقی بچنے والی نمی اور رطوبت کوئي نقصان
    دہ نہيں ، کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہيں ، اورجسے نکسیر پھوپ پڑے اس کا روزہ صحیح
    ہے ، کیونکہ یہ اس کے اختیار میں نہيں ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (

    10 / 264
    ) ۔



    اوراگر مسوڑھوں میں پیپ ہو یا مسواک کرنے سے خون نکلنا شروع ہوجائے تواسے نگلنا
    جائز نہیں بلکہ اسے خون تھوکنا ہوگا لیکن اگر اس کے اختیار کے بغیر حلق میں چلا
    جائے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا ۔



    اوراسی طرح جب قئی بغیر کسی اختیار کے پیٹ میں واپس چلی جائے تواس کا روزہ صحیح ہے
    ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 254
    ) ۔



    کھنگار اورکھانسی کی وجہ سے آنے والی بلغم حلق سے باہر آنے سے قبل نگلنے سے روزہ
    فاسد نہيں ہوتا ، لیکن جب حلق سے باہر زبان تک آجائے تو اس کے نگلنے پر روزہ ٹوٹ
    جائے گا ، لیکن اگر اس کے قصد اور ارادہ کے بغیر نگلی جائے تواس کے روزہ کو کچھ
    نقصان نہيں ہوتا ۔



    پانی صاف کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا پانی کی بھاپ سونگنے سے بھی
    روزہ نہيں ٹوٹتا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 276
    ) ۔



    بغیر کسی ضرورت کے کھانا چھکنامکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے میں روزہ کے فاسد ہونے کا
    خدشہ ہے ، اور ماں کا اپنے بچے کے لیے کسی چيز کو چبا کردینے جب اس کے بغیر کوئي
    چارہ کار نہ ہو اوراسی طرح کھانے کی پکائي چکھنے میں اوراسی طرح جب کسی چيز کی
    خریداری کے وقت چکھنے کی ضرورت ہو توبغیر کسی چيز کے نگلنے سے روزہ کو کوئي نقصان
    نہيں ہوتا ۔



    ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہيں کہ : سرکہ یا کوئي اورچيز خریدنے کے لیے
    چکھنے میں کوئي حرج نہيں ۔



    علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل (

    4/ 86
    ) دیکھیں فتح الباری شرح باب اغتسال الصائم ، کتاب الصائم ۔


    54
    - روزہ دارکے لیے سارے دن مسواک کرنا سنت ہے چاہے مسواک تازہ بھی ہو، روزہ کی حالت
    میں مسواک کرنے پر اگر مسواک کا ذائقہ وغیرہ ہو تو اس کے نگلنے یا اسے تھوک کر
    باقیماندہ نگلنے پرروزہ کو کوئي فرق نہيں پڑتا ۔ دیکھیں الفتاوی السعدیۃ (

    245
    ) ۔



    لیکن ایسی چيز جس کا مادہ تحلیل ہونے والا ہو مثلا تازہ مسواک یا اس میں لیمون
    اورپودینہ کا ذائقہ ہو اسے نکال دینا چاہیے اورعمدا اسے نگلنا جائز نہیں ، لیکن اگر
    بغیر کسی قصد کے نگل لے تو اسے کوئي نقصان نہیں ہوگا ۔


    55
    - روزہ دار کے حلق میں اس کے اختیار کےبغیر نکسیر یا زخم کی وجہ سے خون یا پانی
    اورپٹرول جانے سے روزہ نہيں ٹوٹتا ، اوراسی طرح اگر اس کے پیٹ میں گردوغبار یا
    دھواں اوردھند بغیر کسی ارادہ وقصد کے چلا جائے تو اس سےروزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی
    طرح ایسی چيز جس سے بچنا محال ہوجیسے تھوک نگلنے سے روزہ نہيں ٹوٹتا اوراسی طرح
    راستے کا گردوغبار اورآٹا چھانتے وقت دھوڑ وغیرہ سے نہيں ، اورعمدا تھوک جمع کرنے
    سے بھی صحیح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا ۔



    دیکھیں المغنی لابن قدامہ (
    3 / 106
    ) ۔



    اسی طرح حلق تک آنسو کا جانا ، یا سروغیرہ میں تیل لگانا ، اورمہندی لگانے سے حلق
    میں ذائقہ محسوس پونے پر بھی روزہ کو کچھ نہیں ہوگا ، اوراسی طرح سرمہ ڈالنے اورتیل
    اورمہندی لگانے سے بھی روزہ نہيں ٹوٹتا ۔



    دیکھیں مجموع الفتاوی (
    25 /
    233
    ) (
    25 / 245
    ) ۔



    اوراسی طرح جلد کو ملائم کرنے والی مرہم وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہيں ہوتا ،
    خوشبوسونگنے اور استعمال کرنے میں بھی کوئي حرج نہیں اور روزے دار کے لیے عود کی
    دھونی لینے میں بھی کوئي حرج نہيں لیکن ناک کے ذریعہ پیٹ میں نہيں لےجانی چاہیے ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 314
    ) ۔



    بہتر یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ روزے کی حالت میں استعمال نہ کی جائے ، بلکہ رات کو
    استعمال کرنی چاہیے کیونکہ یہ قوی نفوذ رکھتی ہے ۔



    المجالس شھر رمضان للشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی (

    72
    ) ۔


    56
    - احتیاط اسی میں ہے کہ روزہ دار سنگی اورپچھنے نہ لگوائے ، اس مسئلہ میں شدید
    اختلاف پایا جاتا ہے ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے پچھنے لگوانے والے کا روزہ
    ٹوٹنے والا قول اختیار کیا ہے لیکن لگوانے والے کا نہیں ٹوٹتا ۔


    57
    - سگرٹ نوشی روزہ کو توڑ دیتا ہے ، اوریہ روزہ ترک کرنے کے لیے عذر بھی نہيں توپھر
    معصیت اورگناہ کیسے عذر ہوسکتا ہے ؟ !


    58
    - پانی میں غوطہ لگانا اورکپڑا بھگو کر اوپر لینے میں بھی کوئي حرج نہیں ، اسی طرح
    پیاس کی شدت سے سرمیں پانی ڈالنے میں بھی کوئي حرج نہيں ۔



    دیکھیں : المغنی لابن قدامہ (

    3 / 44
    ) ۔



    روزے کی حالت میں تیرنا مکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے میں روزہ فاسد ہونے کا خدشہ ہے ،
    جس کا کام ہی غوطہ زنی ہو یا ایسا کام کرتا ہو جو غوطہ زنی کا تقاضا کرے توایسی
    صورت میں اگر اسے یقین ہو کہ پانی اس کے پیٹ میں نہیں جائے گا توایسا کرنے میں کوئي
    حرج نہيں ۔


    59
    - اگر یہ خیال کرتے ہوئے کہ ابھی رات کا حصہ باقی ہے کھا پی لیا یا جماع کرلیا
    اورپھر اسے یہ علم ہوا کہ طلوع فجر تو ہوچکی تھی لھذا اس پر کوئي حرج نہیں کیونکہ
    آیت بھی اس اباحت کا تقاضا کرتی ہے کہ طلوع فجر واضح ہونی چاہیے ۔



    امام عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب : المصنف میں ابن عباس سے صحیح سند کے
    ساتھ روایت کیا ہے کہ :



    اللہ تعالی نے آپ کے لیے شک کی حالت تک کھانا پینا حلال کیا ہے ۔



    دیکھیں فتح الباری (
    4 / 135
    ) ۔



    اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یہی قول اختیار کیا ہے ۔ دیکھیں مجموع
    الفتاوی (
    29 / 263
    ) ۔


    60
    - جب کوئي شخص غروب شمس کے گمان میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی افطاری کرلے ،
    توجمہور علماء کرام کے ہاں اسے اس دن کی قضاء کرنا ہوگي کیونکہ اصل یہی ہے کہ دن
    باقی ہے اورشک سے یقین زائل نہيں ہوتا ، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
    تعالی کہتے ہیں کہ اس پر قضاء نہيں ہوگی ۔


    61
    - جب طلوع فجر ہواور کسی کے مونہہ میں کھانا یا پانی ہو تو علماء کرام اس پر متفق
    ہیں کہ اسے نکال پھینکنا چاہیے ، اوراس کاروزہ صحیح ہے ، اوراسی طرح جس نے بھول
    کرکھا پی لیا اوریاد آنے کے وقت جوکچھ مونہہ میں ہواسے جلدی سے نکال دینے پرروزہ
    صحیح رہے گا ۔




    عورت کے لیے روزوں کے احکام


    62
    - جولڑکی بالغ ہوئي اورشرم کی وجہ سے روزے چھوڑتی رہی ، اسے توبہ کے ساتھ ساتھ
    چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء اورتاخیر کی بنا پر ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا
    بھی کھلانا ہوگا کیونکہ اس نے آنے والے رمضان تک بھی قضاء نہيں کی ۔



    اور اسی طرح اس لڑکی کا بھی حکم وہی ہے جوحالت حیض میں بھی شرم کی ماری روزے رکھتی
    رہی ہو اوربعد میں قضاء بھی نہ کی ہو ۔



    اوراگر اسے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد کا علم نہ ہو توغالب ظن کی بنا پر چھوڑے
    روزوں کی قضاء کرے گی اور اس کے ساتھ سابقہ رمضانوں کی قضاء نہ کرنے میں تاخیر کی
    وجہ سے ہر دن کے بدلہ میں ایک مسکین کواجتماعی یا متفرق طورپر کھانا بھی کھلائےگی ۔


    63
    - رمضان کے علاوہ بیوی خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہيں رکھےگی
    ، لیکن اگر خاوند سفر پر ہوتو روزہ رکھنے میں کوئي حرج نہیں ۔


    64
    - عورت جب حیض کے بعد آنے والا سفید رنگ کا پانی آتا دیکھے تواس وہ پاک ہوچکی ہے
    اوراسے رات کوہی روزے کی نیت کرنی چاہیے اورروزہ رکھے ، اوراگر اسے طہر کےبارہ میں
    علم نہيں تو پھر روئي وغیرہ سے دیکھے کہ اگر وہ صاف ہو تو روزہ رکھے گی اوراگر خون
    آلودہ ہوکر نکلے تو وہ حیض کا خون ہے جس کی وجہ سے روزہ نہيں رکھے گی ۔



    چاہے یہ خون قلیل مقدار میں ہی ہو ، یا پھر مٹیالہ رنگ کا پانی عادتا ماہواری کے
    ایام میں ہی آئے تو روزہ نہيں رکھے گی ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 154
    ) ۔



    جب مغرب تک خون نہ آئے اورعورت نے رات کوروزہ کی نیت کرنے کے بعد روزہ رکھ لیا تواس
    کا روزہ صحیح ہے ، اوروہ عورت جس نے غروب شمس سے قبل حیض آنا محسوس کیا لیکن خون
    مغرب کے بعد آیا تواس کا بھی روزہ صحیح ہے اوراس دن کےروزے سے کفائت کرے گا ۔



    حائضہ اورنفاس والی عورت کا خون اگررات کوختم ہوجائے تورات کوروزہ کی نیت کرلینے پر
    اس کا روزہ سب علماء کے مذھب کے مطابق صحیح ہوگا چاہے وہ غسل طلوع فجر کے بعد ہی
    کرے ۔ الفتح (
    4 / 148
    ) ۔


    65
    - وہ عورت جسے یہ علم ہو کہ صبح اس کی ماہواری شروع ہوگي اسے اپنی نیت کے مطابق
    روزہ رکھنا چاہیے ، وہ خون دیکھنے سے قبل روزہ نہيں چھوڑ سکتی ۔


    66
    - حا‏ئضہ عورت کے لیے افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ وہ اپنی طبعی حالت پر ہی رہے
    اوراللہ تعالی کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے جوکچھ اللہ تعالی نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے
    اسے قبول کرے اورمانع حیض ادویات استعمال نہ کرے ، بلکہ اسے بھی اللہ تعالی کی طرف
    سے دی گئي رخصت قبول کرنی چاہیے کہ حيض میں روزے نہ رکھے بلکہ بعد میں اس کی قضاء
    ادا کرے ۔



    امہات المؤمنین رضي اللہ تعالی عنہن اورسلف صالحین کی عورتیں بھی اسی طرح تھیں ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (

    10 / 151
    ) ۔



    اس پر مستزاد یہ کہ موجودہ طب نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ مانع حیض ادویات کے
    استعمال کے بہت سارے نقصانات ہیں ، اوراس کے استعمال سے بہت ساری عورتیں ماہواری
    میں مشکلات کا سامنا کررہی ہیں ۔



    لیکن اگر عورت اسے استعمال کرے اورحیض کا خون نہ آئے تو وہ پاک صاف تصور ہوگي اوراس
    کی نماز و روزہ صحیح ہے اوراسے رکھنا ہوگا ۔


    67
    - استحاضہ کا خون روزے پر اثرانداز نہیں ہوگا ۔


    68
    - جب حاملہ عورت ایسا حمل ساقط کردے جس میں بچے کی صورت واضح ہوچکی ہو یعنی سر یا
    قدم وغیرہ واضح ہوچکا ہو تو یہ نفاس کا خون شمار ہوگا ، اوراگر جما ہوا خون یا پھر
    گوشت کا لوتھڑا جس میں کوئي چيز واضح نہ ہو تویہ نفاس شمار نہيں ہوگا ، بلکہ اگروہ
    استطاعت رکھتی ہو تواسے روزہ رکھنا ہونگے ، اوراگر استطاعت نہ رکھے تو روزہ چھوڑے
    لیکن بعد میں قضاء کرے گی ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 224
    ) ۔



    اوراسی طرح اگر صفائی کروانے کے بعد وہ صاف ہوجائے تو روزہ رکھے گی ، علماء کرام کا
    کہنا ہے کہ حمل کے اسی دن بعد بچے کی تخلیق ہوتی ہے یعنی اعضاء بننا شروع ہوتے ہیں
    ۔



    اگر نفاس والی عورت چالیس یوم سے قبل ہی پاک ہوجائے تووہ غسل کرنے کے بعد روزہ بھی
    رکھے گي اورنماز بھی ادا کرے گی ۔



    دیکھین المغنی مع شرح الکبیر (

    1 / 360
    ) ۔



    اوراگر چالیس یوم کے اندر ہی دوبارہ خون جاری ہوجائے تووہ روزہ نہيں رکھے گی کیونکہ
    یہ نفاس کا خون ہے ، اوراگر چالیس یوم کے بعد بھی خون جاری ہو تو جمہور علماء کرام
    کے ہاں وہ روزے کی نیت کرکے روزہ رکھے گی اورغسل کرلے گی ، اوراسے استحاضہ شمار کیا
    جائے گا ، لیکن اگر یہ خون اس کے حیض کے ایام کے موافق ہوتواسے حیض شمار کیا جائے
    گا ۔



    اگر دودھ پلانے والی عورت نے دن کوروزہ رکھا اوررات کو خون کے دھبے دیکھے تواس کا
    روزہ صحیح ہوگا ۔



    دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (

    10 / 150
    ) ۔


    69
    - راجح یہی ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کو مریض پر قیاس کیا جائے گا لھذا
    اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ، اس پرقضاء کے علاوہ کچھ بھی نہيں ، چاہے انہيں
    اپنے آپ یا بچے کا خدشہ ہو ۔



    اورپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :


    (
    یقنا اللہ تعالی نے مسافر سے روزے اورآدھی نماز ہٹا لی ہے ، اورحاملہ اوردودھ پلانے
    والی عورت سے روزہ ہٹا لیا ہے ) سنن ترمذی (

    3 / 85
    ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔



    حاملہ عورت اگر خون جاری ہونے کی شکل میں بھی روزہ رکھے تواس کا روزہ صحیح ہوگا اس
    کا روزے کی صحت پر کچھ اثر نہيں ہوگا ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (

    10 / 225
    ) ۔


    70
    - جس عورت پر روزے واجب ہوں جب اس سے خاوند نے رمضان میں دن کے وقت اس کی رضامندی
    سے جماع کرلیا تواس کا بھی خاوند کے حکم جیسا ہی ہوگا ، لیکن اگر بیوی مکرہ یعنی
    اسے مجبور کیا گیا ہو تواسے چاہیے کہ وہ ایسا نہ کرنے دے ، لیکن اس پر کفارہ نہيں
    ہوگا ۔



    ابن عقیل رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :



    جس نے سوئي ہوئي بیوی سے نیند کی حالت میں جماع کرلیا بیوی پرکفارہ نہيں ہوگا ،
    احتیاط اسی میں ہے کہ اس دن کا روزہ قضاء کرے گی ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
    تعالی کہتے ہیں کہ اس کا روزہ صحیح ہے فاسد نہيں ہوا ۔



    جس عورت کویہ علم ہو کہ اس کاخاوند اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کرسکتا اسے چاہیے کہ وہ
    رمضان میں دن کے وقت اپنے خاوند سے دور رہے اور بناؤ سنگار نہ کرے ، رمضان کے چھوڑے
    ہوئے روزوں کی قضاء عورت پر واجب ہے چاہے اس کا علم خاوند کو نہ ہو ، کیونکہ واجب
    روزہ رکھنے میں خاوند کی اجازت لینا شرط نہيں ۔



    جب عورت رمضان کی قضاء کا روزہ رکھ لے تووہ بغیر کسی شرعی عذر کے اسے نہيں توڑ سکتی
    اور نہ ہی خاوند اسے توڑنے کا حکم دے سکتا ہے ، اورنہ ہی وہ اس سے جماع کرسکتا ہے ،
    اورجماع میں عورت بھی اس کی اطاعت نہیں کرے گي ۔



    دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (

    10 / 353
    ) ۔



    لیکن عورت کے لیے خاوند کی موجودگی میں بغیر اجازت نفلی روزے رکھنا جائز نہيں اس
    لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :



    ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
    فرمایا :


    (
    کوئي عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے ) صحیح
    بخاری حدیث نمبر (
    4793
    ) ۔



    مسائل رمضان میں مندرجہ بالا اشیا کا ذکر باآسانی ہوسکا ہے آخر میں ہم اللہ تعالی
    سے دعا گو ہيں کہ وہ اپنے ذکر اور شکرحسن عبادت پر ہمارا تعاون فرمائے ، اورہمارے
    لیےماہ رمضان کا خاتمہ گناہوں سے بخشش اورآگ سےآزادی کا باعث بنائے ۔



    اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی
    رحمتوں کا نزول فرمائے


      الوقت/التاريخ الآن هو الجمعة 15 نوفمبر - 6:38:54