" روزوں کے ستر 70مسائل
"
مقدمة
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضلّ له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
أما بعد :
اللہ تعالی کی تعریف وشکر ہے ، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں ، اور اس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ، اوراسی سے ہی بخشش طلب کرتے ، اوراپنے نفسوں کی شر اوربرے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں ۔
جسے اللہ تعالی ھدایت سے نوازے اسے کوئي گمراہ نہیں کرسکتا ، اورجسے وہ گمراہ کردے اسے کوئي راہ نہیں دکھا سکتا ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئي شریک نہيں ، اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔
امابعد :
بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فضل کرم اوراحسان کرتے ہوئے خیروبھلائي کا موسم سایہ فگن کیا ہے ، یہ ایسے ایام ہیں جن میں حسنات ونیکیاں زيادہ ہوتی اور گناہوں کو
مٹایا جاتا اوردرجات میں بلندی ہوتی ہے ۔
اس موسم میں مومنوں کے نفوس اپنے مولا و آقا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، یقینا وہ شخص کامیاب وکامران ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا ، اور نفس کی پیروی میں پڑنے
والا شخص خائب وخاسر ہوا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے مخلوق کو اپنی عبادت کےلیے پیدا فرمایا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
{ میں نے تو جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے } ۔
اورعبادات میں سب سے عظیم عبادت اللہ تعالی کے فرض کردہ روزے ہیں جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا : { تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } ۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کوروزہ رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :
{ اور تمہارے لیے بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو } ۔
اوراللہ تعالی نے اس فرضيت پر شکر ادا کرنے کی راہنمائي کرتے ہوئے فرمایا :
{ اوراللہ تعالی کی دی ہوئي ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکرادا کرو } ۔
اوران روزہ کو ان کے لیے محبوب اورپسندیدہ بنایا اوران پر آسانی اورتخفیف کی تا کہ لوگوں کو اپنی عادات اورمالوف کردہ اشیاء ترک کرنا بوجھ محسوس نہ ہو اللہ تعالی نے
فرمایا :
{ گنتی کے چند دن ہیں } ۔
اوراللہ تعالی نے اپنے بندوں پر تنگی اورحرج کاخیال رکھتے ہوئے رحمدلی کرتے ہوئے فرمایا :
{ تم میں سے جوبھی مریض ہویا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی مکمل کرے }
لھذا اس میں کوئي تعجب والی بات نہیں کہ اس ماہ مبارک میں مومنوں کے دل اللہ رب رحیم کی طرف متوجہ ہوں اوراس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے
اجروثواب اور فلاح وکامیابی کی امید رکھیں ۔
جب اس عظیم عبادت کی بہت ہی قدروقیمت ہے لھذا اس ماہ مبارک کے روزوں کے احکام جاننے ضروری ہیں ، تاکہ مسلمان کو علم ہوسکے کہ اس پر کونسا عمل واجب اورضروری ہے اورحرام کیا ہے تا کہ اس سے اجتناب کیا جاسکے ، اورکونسی چيز مباح ہے جس کے رکنے سے وہ اپنے آپ پر تنگی نہ کرتا پھرے ۔
یہ مختصر سا کتابچہ روزوں کے احکام اوراس کی سنن وآداب کا خلاصہ ہے ، میں نے اس میں اختصارکا خیال رکھا ہے ، امید ہے کہ اللہ تعالی میرے اور مسلمان بھائيوں کے لیے اسے مفید بنائے ، والحمد للہ رب العالمین ۔
روزے کی تعریف
:
1 - الصوم لغت عرب میں الامساک یعنی رکنے کو کہتے ہیں ۔
شرعی اصطلاح میں طلوع فجر سے لیکر غروب شمس تک مفطرات یعنی روزہ توڑنے والی اشیاء سے نیت کے ساتھ رکنے کو روزہ کہا جاتا ہے ۔
روزے کے احکام :
2 - امت کا اجماع ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہیں ،اس کی دلیل مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی ہے :
{ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو } ۔
روزے کی فرضيت پر سنت نبویہ میں بھی دلائل پائے جاتےہيں جن میں سے ایک دلیل مندرجہ ذیل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( اسلام کی بنیاد پانچ چيزوں پر ہے ۔۔۔۔ اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ) صحیح بخاری دیکھیں فتح الباری ( 1 / 49)
جس شخص نے بھی بغیر کسی عذر کے رمضان کا روزہ نہ رکھا اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
( جب ہم پہاڑ کے پر پہنچے تو وہاں شدید قسم کی چیخ وپکار تھی میں نے کہا یہ آوازيں کیسی ہیں ؟ وہ کہنے لگے : یہ جہنمیوں کی آہ بکا ہے ، پھر مجھے اور آگے لے جایا گيا
تومیں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکایا ہوا تھاان کی باچھیں کٹی ہوئي
تھیں اوران سے خون بہہ رہا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا : میں نے فرشتوں سے
پوچھا یہ کون ہیں ؟
وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی روزہ کھول دیتے تھے ) صحیح
الترغیب ( 1/ 420
) ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مومنوں کے یہ بات طے شدہ ہے کہ رمضان ا لمبارک میں بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنے
والا شخص زانی اورشرابی سے بھی زيادہ برا اورشریر ہے ، بلکہ اس کے اسلام میں ہی شک
کرتے ہيں ، اوراسے زندیق اورگمراہ تصور کرتے ہیں ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگر کوئي شخص رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھنے کی حرمت کا علم ہوتے ہوئے بھی روزہ
افطار کرنا حلال سمجھے تو وہ واجب القتل ہے ، اوراگر فاسق ہو تو رمضان میں روزہ نہ
رکھنے کی بنا پر اسے سزا دی جائے گی ۔
دیکھیں مجموع الفتاوی ( 25 /
265
) ۔
روزے کی فضیلت
3
- روزے کی بہت عظيم فضیلت ہے جس کے بیان میں بہت سی احادیث وارد ہيں ذیل میں ہم
چند ایک صحیح احادیث نقل کرتے ہيں :
روزہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالی نے اپنے ساتھ خاص کیا ہے اوریہ وہ روزہ دار کو خود
ہی بلاحساب اجروثواب سے نوازے گا جیسا کہ حدیث میں ہے :
(
سوائے روزے کے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجر دونگا ) صحح بخاری
حدیث نمبر ( 1904
) ، صحیح الترغیب ( 1 / 407
) ۔
اوریہ کہ روزے کے پلے کا کوئي عمل نہيں ، دیکھیں سنن نسائي (
3 / 345
) اورصحیح الترغیب ( 1 / 413
) ۔
یہ بھی فضیلت ہے کہ روزہ دار کی دعا رد نہيں ہوتی ۔ دیکھيں سنن بیھقی (
3 / 345
) اورسلسلۃ احادیث الصحیحۃ (
1797
) ۔
اوریہ کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، جب وہ افطاری کرتا ہے تواپنی افطاری سے
خوش ہوتا ہے ، اورجب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا ۔
دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 807
) ۔
اور یہ بھی فضیلت ہے کہ روزہ قیامت کے دن روزہ دار کے لیے سفارش کرتے ہوئے کہے گا :
اے رب میں نے اسے دن کو کھانے پینے اورشھوات سے روک دیا تھا اب اس کے بارہ میں میرے
سفارش قبول فرما ۔
دیکھیں مسند احمد ( 2 / 174
) ھیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے دیکھیں المجمع (
3 / 181
) صحیح الترغیب ( 1 / 411
) ۔
اللہ تعالی کے ہاں روزہ دار کے مونہہ کی بو کستوری سے بھی زيادہ اچھی ہے ۔ دیکھیں
صحیح مسلم ( 2 / 807
) ۔
اوریہ کہ : جہنم کی آگ سے روزہ بچاؤ اورڈھال ہے ۔
دیکھیں مسنداحمد ( 2 / 402
) صحیح الترغیب ( 1 / 411
) صحیح الجامع ( 3880
) ۔
جس نے بھی فی سبیل اللہ ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالی اس دن کے بدلے میں اسے جہنم
سے ستر برس دور کردے گا ۔
دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 808
) ۔
اوریہ بھی فضیلت ہے کہ : جس نے بھی ایک اللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دن کا روزہ
رکھا اس کی وجہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ مسند احمد (
5 / 391
) صحیح الترغیب ( 1 / 412
) ۔
اورجنت میں الریان نامی ایک دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں ان کے
علاوہ کوئي اورداخل نہيں ہوسکتا جب روزہ دار داخل ہوجائيں گے تو یہ دروازہ بند
کردیا جائے گا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1797
) ۔
اور رمضان المبارک کے روزے رکن اسلام ہیں اورماہ رمضان میں ہی قرآن مجید نازل
کیاگيا ، اوراسی ماہ مبارک میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار راتوں سے بھی زيادہ افضل
ہے ۔
جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے
دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر
( 3277
) ۔
رمضان المبارک کے روزے دس ماہ کے برابر ہیں ۔ دیکھیں مسند احمد (
5 / 280
) صحیح الترغیب ( 1 / 421
) ۔
جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے روزے رکھے اس کے پچھلے
تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔
دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر (
37
) ۔
ہر افطار کے وقت اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔ دیکھیں مسند احمد (
5 / 256
) صحیح الترغیب ( 1 / 419
) ۔
روزے کے فوائد
4
- روزے کی بہت ساری حکمتیں اورفوائد ہیں جن کا دارومدار تقوی ہی ہے جس کا اللہ
تعالی اپنے فرمان " تا کہ تم تقوی اختیار کرو " میں بیان کیا ہے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ : جب اللہ تعالی کی رضامندی چاہتے ہوئے اوراس کے عذاب کے خوف
سے مسلمان حلال چيزوں سے بھی روزے کی حالت میں رک جاتا ہے تو وہ بالاولی حرام اشیاء
سے اجتناب کرے گا ۔
اوریہ کہ جب انسان کا پیٹ خالی ہواوراسے بھوک ہو تو اس کے حواس سے بھوک جاتی رہتی
ہے ، اورجب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو تواس کی زبان ، آنکھیں ، ہاتھ اورشرمگاہ بھوکی
ہوجاتی ہے ، لھذا روزہ شیطان کو ذلیل کرتا اورشھوت کو توڑتا اور اعضاء کی حفاظت
کرتا ہے ۔
جب روزہ دار بھوک اورپیاس کی شدت پاتا ہے تو اسے فقراء اورمساکین کے حالات کا احساس
ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتا ہے ،
کیونکہ کسی چيز کی خبر اسے دیکھنے کی طرح نہيں ہوتی ، اورنہ ہی سوار پیدل چلنے کے
بغیر پیدل چلنے والی کی مشقت کو جان سکتا ہے ۔
روزہ خواہشات سے اجتناب اورگناہوں سے دوررہنے کے ارادہ کو زيادہ کرتا ہے ، کیونکہ
اس میں طبیعت کودبانا اورنفس کو مالوف اشیاء سے دور کرنا ہوتا ہے ، اورروزہ میں نظم
کا عادی بنایا جاتا ہے اوروعدوں کو بروقت پورا کرنے کی مشق ہوتی ہے جس کی بنا پر
بدنظمی کرنے والوں کا علاج ہے ، لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عقل وبصیرت سے کام لیا
جائے ۔
اسی طرح روزے میں مسلمانوں کی وحدت کا اعلان ہے لھذا سب مسلمان ایک ہی ماہ میں
اکٹھے روزہ رکھتے اوراکٹھے ہی افطار کرتے ہیں ۔
روزوں میں مبلغین اورواعظین حضرات کےلیے فرصت اورسنہری موقع ہوتا ہے کہ وہ لوگوں تک
دعوت دین پہنچاسکیں ، دیکھیں اس ماہ مبارک میں لوگوں کے دل مسجدوں کی طرف کھنچے چلے
آرہے ہیں بلکہ بعض تو وہ بھی ہوتے ہیں جوپہلی بار مسجد میں داخل ہوئے ہيں ۔
اورکچھ وہ بھی ہیں جوبہت مدت بعد مسجد کا رخ کررہے ہیں ، اوروہ اس وقت نادر رقت کی
حالت میں ہیں جوکبھی کبھی ہوتی ہے ، اس لیے اس فرصت کو موقع غنیمت جانتے ہوئے درس
اوروعظ کے ذریعہ لوگوں کو دعوت دینی چاہیے ، اورایک دوسرے سے نیکی وبھلائي میں
تعاون کرنا چاہیے ۔
واعظ اورداعی کوبالکل دوسروں میں ہی مشغول نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بھول
ہی جائے اوراس شمع کی طرح ہو جودوسروں کوتو روشنی دیتی ہے اوراپنا آپ جلاتی رہتی یا
پھر ایسے ہو کہ چراغ تلے اندھیرا ؟ ۔
روزوں کے آداب و سنن
5
- روزے کے آداب اورسنن ۔
ان میں کچھ تو واجب اورکچھ مستحب ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(
سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ) صحیح بخاری (
4 / 139
) ۔
یہ کھانا بابرکت ہے ، اورسحری کھانے میں اہل کتاب کی مخالفت بھی پائي جاتی ہے ،
اورپھر مومن کی سب سے بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ دیکھیں سنن ابوداود حدیث نمبر (
2345
) صحیح الترغیب ( 1 / 448
) ۔
افطاری میں جلدی کرنی چاہیے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(
جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائي موجود رہے گی ) صحیح بخاری
( 4 / 198
) ۔
اسے حدیث میں بیان کی گئي اشیاء سے روزہ افطار کرنا چاہیے ، انس رضی اللہ تعالی عنہ
بیان کرتے ہیں کہ :
(
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب
نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئي کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک
آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ) سنن ترمذی (
3 / 79
) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ
اللہ تعالی نے ارواء الغلیل (
922
) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے بعد مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری
کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے :
(
ذهب الظمأ ، وابتلت العروق ، وثبت الأجر إن شاء الله
) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئيں اورانشاء اللہ اجر ثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود ( 2 / 765
) دار قطنی نے اسے حسن قرار دیا ہے دیکھیں سنن دار قطنی (
2 / 185
) ۔
بے ہودہ بات چيت اوراعمال سے اجتناب کرنا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے :
(
تم میں سے جب کوئي روزہ سے ہو تووہ گناہ کےکام نہ کرے ) رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا
ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(
جوکوئي بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے
اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
1903
) ۔
لھذا روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرحرام کردہ چيز سے اجتناب کرے مثلا چغلی
وغیبت اورفحش گوئي وجھوٹ وغیرہ سے پرہیز کرے کیونکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے بعض
اوقات اس کےروزے کا اجر ہی ضائع ہوجاتا ہے ۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(
بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن
ماجہ ( 1 / 539
) صحیح الترغیب ( 1 / 453
) ۔
نیکیوں کوختم کرنے اوربرائيوں کو کھینچنے والی اشیاء میں فلمیں اورڈراموں اورکھیل
کود میں وقت اوراسی طرح فارغ بیٹھے رہنے اوربرے اخلاق اوروقت ضائع کرنے والوں کے
ساتھ راستوں اورگلی محلہ میں آوارہ گھومنا ، اورگاڑیوں سے کھیلنا ، راستوں اور فٹ
پاتھوں پر بھیڑ کرنا ، یہ سب اشیاء نیکیوں کو ختم کرتی اوربرائي پیدا کرتی ہيں ۔
حتی کہ یہ ماہ مبارک جو تھجد اورقیام اللیل کا مہینہ تھا اکثر لوگ تو سارا دن سو
کرگزار دیتے ہیں تا کہ بھوک وپیاس کا احساس نہ ہوسکے ، جس کی بنا پر باجماعت نمازيں
ضائع ہوتی ہیں اوربعض اوقات تو نماز کے وقت میں بھی ادائيگي نہیں ہوتی ، پھر رات کو
کھیل کود اورشھوات میں پڑے رہتےہیں ، اوربعض لوگ تورمضان کے آنے پر پریشان ہوجاتے
ہیں کہ ان کی لذتیں جاتی رہیں گی اورکچھ لوگ رمضان المبارک میں کفار ممالک میں چلے
جاتے ہيں تا کہ تا کہ وہاں پر وہ کچھ کرسکیں جواپنے ملک میں کرنا مشکل ہے ! ۔
حتی کہ اب تو مساجد بھی منکرات سے خالی نہیں رہتیں بلکہ عورتیں نماز پڑھنے کے بہانے
سے عطروخوشبو اورطرح طرح کی پرفیومز اسعتمال کرلے بے پردہ ہوکرنکلتی ہیں جس سے فتنہ
پیدا ہوتا ہے ، حتی کہ بیت اللہ بھی ان آفات سے خالی نظر نہیں آتا ۔
اورکچھ لوگوں نے تو رمضان المبارک مانگنے اورسوال کرنے کا سیزن بنا رکھا ہے حالانکہ
وہ محتاج نہيں اور اس سے سوال کے لیے دست دراز کرنا صحیح نہيں ، اوربعض لوگ تو اس
ماہ مبارک میں آتشبازي اورپٹاخے وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہوتے ہيں ، اورکچھ منچلے
تو بازاروں اورشاپنگ سینٹروں میں گھومتے اورتالیاں و سیٹیاں بجاتےنظر آتے ہیں ۔
اورکچھ عورتیں توسلائی اورخوبصورتی کےپیچھے پڑي رہتی ہیں ، اوررمضان کے آخری عشرہ
میں نئے نئے ماڈل کے ملبوسات بازارمیں آتے ہیں جو لوگوں کو اجروثواب اورنیکیوں سے
محروم کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔
٭
روزہ دار کوشور شرابا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(
اگر روزہ دار سے کوئي شخص لڑائي جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ ہو تو اسے یہ کہنا
چاہیے میرا روزہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
1894
) ۔
اس حدیث میں ایک نصیحت تو خود روزہ دارکوہے اوردوسری اس سے لڑنے والے شخص کو کی گئي
ہے ، لیکن اس دور میں اگربہت سے روزہ داروں کے اخلاق کو دیکھا جائے تو اس اخلاق
فاضلہ کے خلاف ہی ان کے اخلاق ہوتے ہیں لھذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ صبر وتحمل کا
مظاہرہ کرے ۔
اور اسی طرح اسے وقار اورسکینت اختیار کرنی چاہیے لیکن اس کے برعکس آپ دیکھیں گے کہ
بہت سے ڈرائیور مغرب کی اذان کے وقت جنونی قسم کی ڈرائيونگ کرتے ہیں ۔
٭
کھانا پینے میں کمی کرنی چاہیے ، اس لیے کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے :
(
ابن آدم کا بھرا ہوا پیٹ سب سے برا برتن ہے ۔۔۔۔ ) سنن ترمذي حدیث نمبر (
2380
) ۔
عقل مند توصرف زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ کہ وہ کھانے کے لیے زندہ رہتا ہے ،
رمضان المبارک میں انواع اقسام کےکھانے تیار کیے جاتے ہیں ، اورکھانے پکانے میں ایک
دوسرے کا مقابلہ ہوتا ہے کہ کون اچھا پکانےوالا ہے ، حتی اس ماہ مبارک میں
گھروالیوں اورملازماؤں کا اکثر وقت تو کھانا پکانے میں صرف ہوجاتا ہے ، جس کی بنا
پر وہ عبادت سے محروم رہتیں ہیں ۔
اوراس ماہ مبارک میں سب سے زيادہ خرچہ کھانے پکانے پر ہی کیا جاتا ہے حالانکہ عام
دنوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا ، بلکہ یہ مہینہ تو معدہ کے امراض اورموٹاپن
پیدا ہونا کا مہینہ بن چکا ہے ، وہ لالچی اورحریص کی طرح کھاتے اورپیاسے اونٹ کی
طرح پیتے ہیں ، اورجب نماز کی باری آئے تو سستی اورکاہلی سے نماز میں کھڑے ہوتے ہیں
، اورکچھ تو پہلی دورکعت ادا کرنے کے بعدہی بھاگ جاتے ہیں ۔
٭
روزہ میں علم ومال کی دولت ، اوربدن وعزت وشرف اوراخلاق کی دولت کو سخاوت کرکے
لٹایا جاتا ہے ۔
صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم سب لوگوں سے يادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک
میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زيادہ جود وسخا کرتے
جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ،
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زيادہ خیروبھلائي کی جود وسخا کرنے
والے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6
) ۔
اب ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے جود وسخا کو بخل سے اوراللہ تعالی کی اطاعت میں
نشاط کو سستی وکاہلی سے بدل ڈالا ہے ، وہ نہ تو اعمال ہی بہتر اوراچھے اور پختہ
کرتے ہیں اور نہ ہی معاملات میں اچھا برتاؤ کرتے ہیں روزہ کووسیلہ بناتے ہیں ۔
روزہ رکھنا اور دوسرے کو کھلانا اگرکسی میں یہ دونوں چیزيں جمع ہوں تویہ جنت میں
داخل ہونے کا ایک سبب ہے ، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے فرمان
میں بیان کیا ہے :
(
یقینا جنت میں ایسے کمرے ہیں ان کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظرآتا ہے ، اوراندر سے
اس کا باہر والاحصہ نظر آتا ہے ، اللہ تعالی نے یہ کمرے کھانا کھلانے ، اوربات چيت
میں نرم رویہ اختیاروالے ، روزہ دار، اور رات کوجب لوگو سوئے ہوں تو نماز پڑھنے
والے کے لیےتیار کیے ہیں ) مسند احمد (
5 / 343
) صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر (
2137
) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے کسی روزہ دارکوافطاری کروائی اسے بھی
روزہ دارجیسا اجروثواب حاصل ہوگا ، اورروزہ دارکے اجروثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگي )
سنن ترمذی ( 3 / 171
) صحیح الترغیب ( 1 / 451
) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
افطاری کروانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا جائے ۔ دیکھیں
الاختیارات الفقھيۃ صفحہ نمبر (
109
) ۔
بہت سے سلف صالحین رحمہ اللہ تعالی نےفقراء کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی افطاری فقراء
ومساکین کو دے دی ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ، مالک بن دینا ،
احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہيں ، بلکہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما تو
یتیموں اورمسکینوں کے بغیرافطاری ہی نہيں کرتے تھے ۔
اس ماہ مبارک میں کرنے والے ضروری کام :
٭
نفوس اورماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا ، اورتوبہ و اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے
میں جلدی کرنا ، ماہ رمضان کے آنے پر خوشی محسوس کرنا ، روزے کو اچھے اوربہتر انداز
اورپختگی سے رکھنا ، ، نماز تروایح میں خشوع وخضوع اختیار کرنا ، دوسرے عشرے میں
نماز تراویح سے پیچھے نہ ہٹنا ، لیلۃ القدر کی تلاش اورعبادت کرنا ، ایک بارقرآن
مجید پڑھنے کے بعد دوبارہ غوروفکر اورتدبر سے پڑھنا ، رمضان میں عمرہ حج کے برابر
ہے ، فضیلت والے ماہ مبارک میں صدقہ وخیرات کرنا بڑے اوردوگنے اجروثواب کا باعث ہے
، رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔
٭
رمضان المبارک شروع ہونے کی مبارکباد دینے میں کوئي حرج نہيں ، نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو رمضان المبارک کے آنے کی خوشخبری دیا کرتے اوراس کا
خیال رکھنے پر ابھارا کرتے تھے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرےت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :
(
تم پر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سايہ فگن ہورہا ہے ، اللہ تعالی نے تم پر اس
کے روزے فرض کیے ہیں ، اس مین آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، اورجہنم کے
دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اوربڑے بڑے سرکش شیطان جکڑ دیے جاتے ہيں ، اس میں ایک
رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے ، جوبھی رمضان کی خیر سے محروم کردیا گيا وہ
محروم ہی ہے ) ۔
سنن نسائي ( 4 / 129
) صحیح الترغیب ( 1 / 490
) ۔
روزے کے بعض احکام
6
- کچھ روزے تو ایسے ہیں جو مسلسل رکھنے واجب ہیں مثلا رمضان المبارک اورکفارہ قتل
اورکفارہ ظہار اور رمضان میں دن کےوقت روزے کی حالت میں جماع کے کفارہ میں رکھے
جانے والے روزے ۔
اورکچھ روزے ایسے ہیں جس میں تسلسل لازم نہیں ، مثلا رمضان المبارک کی قضاء ،
اورجوشخص قسم کا کفارہ میں رکھے جانے والے روزے اورحج میں قربانی نہ پانے والے کے
دس روزے ، یہ جمہور کا مسلک ہے ، ( احرام کی حالت میں ممنوعہ عمل کرنے کے فدیہ میں
رکھے جانے والے روزے ) راجح مسلک یہی ہے ، اوراسی طرح مطلقا نذر کےروزے جس میں اس
نے تسلسل کی نیت نہ کی ہو ۔
7-
نفلی روزے فرضی روزوں کی کمی کو پورا کرتے ہیں ، اس کی مثال عاشوراء اوریوم عرفہ ،
اورایام بیض یعنی تیرہ چودہ اورپندرہ تاریخ کا روزہ ، پیر اورجمعرات کا روزہ ،
اورشوال کے چھ روزے ، اورمحرم اورشعبان میں اکثریت سے روزے رکھنا ۔
8
–
صرف اکیلا جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے جیسا کہ بخاری کی حدیث نمبر (
1985
) میں بھی مذکور ہے ، اوراسی طرح فرضی روزے کے علاوہ صرف ہفتہ کے دن کا روزہ رکھنا
بھی منع ہے ۔ دیکھیں سنن ترمذی (
3 / 111
) ۔
مقصد یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے صرف جمعہ یا ہفتہ کا روزہ رکھا جائے یہ منع ہے ،
اوراسی طرح سارا سال ہی روزہ رکھنے بھی منع ہیں ، اورروزمیں وصال بھی منع ہے یعنی
دو یا دو سے زيادہ دن افطاری کیے بغیر ایک روزے کو دوسرے سے ملا لیا جائے ۔
عیدالفطر اورعید الاضحی اورایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ ، اورتیرہ ذوالحجہ کو روزہ
رکھنا حرام ہے کیونکہ یہ کھانے پینے کے دن ہيں ، لیکن حج تمتع اورقران میں جس کے
پاس قربانی نہ ہو وہ ان ایام کے روزے منی میں رکھ سکتا ہے ایسا کرنا اس کے لیے جائز
ہے ۔
ماہ رمضان کی ابتداء
9-
ماہ رمضان کی ابتداء چاند دیکھنے یا پھر شعبان کے تیس دن پورے ہونے پررمضان المبارک
شروع ہوتا ہے ، لھذا جو بھی چاند دیکھے یا کسی ثقہ شخص کی جانب سے چاند دیکھے جانے
کی خبر ملے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ۔
لیکن فلکی حسابات کی بناپر مہینہ شروع کرنے کا عمل بدعت ہے ، کیونکہ حدیث مین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااسی مسئلہ میں فرمان ہے کہ :
(
چاند دیکھ روزہ رکھو اورچاند دیکھ کرہی روزے ختم کرو ) ۔
لھذا جب کسی مسلمان عاقل بالغ اورثقہ شخص کی جانب سے یہ خبر ملے کہ اس نے اپنی
آنکھوں سے چاند دیکھا ہے تواس کی خبر پر عمل کرتے ہوئے روزے رکھے جائيں گے ۔
روزے کس پر فرض ہیں ؟
10
- ہرعاقل بالغ مقیم اورقادر اورموانع ( یعنی حیض و نفاس ) سےسالم مسلمان پر روزے
رکھنا فرض ہیں ۔
بلوغت تین اشیاء میں سے ایک چيز کے پیدا ہونے پربلوغت ہوجاتی ہے : احتلام وغیرہ کے
ذریعہ منی کا انزال ، زیرناف سخت بال اگنا ، عمر پندرہ برس مکمل ہوجانا ، لیکن لڑکی
میں حیض کے اضافہ کے ساتھ چارچيزوں میں سے کسی ایک کے آنے پر بلوغت ثابت ہوجاتی ہے
، اس لیے حیض آنے پر لڑکی پر روزے فرض ہوجائيں گے جاہے اسے دس برس کی عمر سے قبل ہی
حیض آجائے
11
- سات برس کی عمرکا بچہ اگر روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تواسے بھی روزہ رکھنے کا
حکم دیا جائے گا ، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب بچہ دس برس کی عمرمیں روزہ نہ رکھے
تو اسے نمازترک کرنے کی طرح سزا دی جائے گی ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ (
3/ 90
) ۔
بچہ کوروزے کا اجروثواب حاصل ہوگا اوراس کے والدین کو تربیت اورنیکی وبھلائي سکھانے
کا اجرحاصل ہوگا حدیث میں ہے کہ :
ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالی عنہا عاشوراء کے روزے کی فرضیت کے بارہ میں کہتی ہیں
:
جب عاشوراء کا روزہ فرض ہوا تو ہمارے بچے روزہ رکھتے تھے ، اورہم ان کے لیے روئی کے
کھلونے بنا کررکھتے جب ان میں سے کوئي بھوک کی وجہ سے رونے لگتا تو ہم وہ کھلونا
اسے دیتے اورافطاری تک اس کےپاس ہی رہتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1960
) ۔
اوربعض لوگ اپنے بچوں کے ساتھ روزوں کے معاملہ میں سستی سے کام لیتے ہیں ، بلکہ
بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچہ شوق سے روزہ رکھ لیتا اوروہ اس کی طاقت بھی
رکھتا ہے تواس کے والدین اپنے خیال میں اس پرشفقت کرتے ہوئے اسے روزہ توڑنے کا کہتے
ہیں ، لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ بچوں پر حقیقی شفقت تویہی ہے کہ وہ انہیں روزہ
رکھنے کا عادی بنائيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{
اے ایمان والو اپنے آپ اوراپنے گھروالوں کوجہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ
اورپتھر ہیں ، اس پر سخت قسم کے فرشتے مقرر ہیں جواللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی
نہيں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا جاتا وہ اسے بجا لاتے ہیں } ۔
12
- جب کافر اسلام قبول کرلے یا پھر بچہ بالغ ہوجائے یا مجنون اورپاگل دن کے وقت ہوش
قائم کرلے تو اسے باقی سارا دن کچھ بھی نہیں کھانا پینا چاہیے کیونکہ ان پر روزہ
واجب ہوچکا ہے ، لیکن انہیں اس سے پہلے گزرے ہوئے روزے قضاء نہیں کرنا پڑیں گے ، اس
لیے کہ اس وقت ان پرروزے فرض نہيں تھے ۔
13
- مجنون اورپاگل مرفوع عن القلم ہے ، لیکن اگر اسے بعض اوقات پاگل پن کا دورہ پڑتا
ہو اوربعض اوقات وہ ہوش وہواس میں رہتا ہو توہوش کےوقت اس پر روزہ رکھنا واجب ہے
لیکن جنون کی حالت میں نہيں ۔