شعبان کا مہینہ
شعبان ایک مہینے کا نام ہے اسے شعبان اس لیے کہاجاتا ہے کہاس ماہ میں عرب پانی تلاش کرنے نکلتے تھے ، اورایک قول یہبھی ہے کہ وہ جنگوں میں نکلتے تھے ، اورایک قول یہبھی ہے کہ اس مہینہ کو رجب اوررمضان کے مابین ہونے کی وجہ سے شعبان کہا جاتا ہے ، اس کی جمع شعبانات اورشعابین ہے ۔
شعبان کے مہینہ میں روزے رکھنا :
عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب وہ روزے نہیں چھوڑيں گے ، اورجب آپ روزے نہ رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے
۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں مکمل مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اورمیں نے انہیں شعبان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھے ۔
دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر (
1833 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1956 )
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں تقریبا سارا مہینہ ہی روزے رکھا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر (
1957 ) ۔
علماء کرام کے ایک گروہ جس میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں پورا مہینہ روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ اس میں وہ اکثرایام روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس کی دلیل اورشاھد عائشہ رضي اللہ تعالی کی مندرجہ ذيل حدیث ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے:
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ مجھے علم نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ مکمل مہینہ کے روزے رکھیں ہوں دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر (
1954 )
اورایک روایت میں ہے کہ :
جب سے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت سے میں
نے انہیں رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کے مکمل روزے رکھتے ہوئے
نہیں دیکھا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (
1955 ) ۔
صحیحین
میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینہ کے
روزے نہیں رکھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حديث نمبر (
1971 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1157 ) ۔
ابن عباس رضی اللہ
تعالی عنہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینہ کے روزے
رکھنا مکروہ سمجھتے تھے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزے باقی سب مہینوں سے
زیادہ ہوتے تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے
مہینہ میں اکثرایام روزے رکھا کرتے تھے ۔
اسامہ بن زيد رضي اللہ
تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم میں دیکھتاہوں کہ آپ باقی مہینوں
میں اتنے روزے نہيں رکھتےجتنے شعبان میں رکھتے ہیں ؟
تورسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
یہ ایسا
مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے ہیں ، یہ
مہینہ رجب اور رمضان کے مابین ہے ، اوریہ ایسا
مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ رب العالمین کے ہاں اٹھائے جاتے
ہیں ، اورمیں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے
کی حالت میں اٹھائے جائيں ۔
اسے نسائی نے
روایت کیا ہے ، دیکھیں صحیح الترغیب
والترھیب صفحہ (
425 )
۔
اورابوداود کی
روایت میں ہے کہ :
عائشہ رضی اللہ
تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ شعبان میں سب سے زیادہ روزے رکھنا پسند فرماتے تھے ،
اورپھر اسے رمضان کے ساتھ ملالیتے تھے ۔
علامہ البانی رحمہ
اللہ تعالی نے اسے صحیح قراردیا ہے دیکھیں
صحیح سنن ابوداود (
2 / 461 ) ۔
ابن رجب رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
شعبان کے روزے اشھرالحرم
کےروزوں سے افضل ہیں ، سب سے افضل وہ نفلی عبادت ہے جو رمضان سے قبل
اوربعد میں رمضان سے ملحق ہو ، ان روزوں کا درجہ فرائض کے ساتھ سنن مؤکدہ
جیسا ہے جوفرائض سے قبل اوربعد میں پڑھی جاتی ہیں ،
جوکہ فرائض کے نقص کوپورا کریں گے ، رمضان سے قبل اوربعد میں روزے
بھی اسی طرح ہیں ۔
توجس طرح نماز میں
عام نفلوں سے سنت موکدہ افضل ہیں اسی طرح رمضان سے اوراس کےبعد روزے
بھی افضل ہیں ۔
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( رجب اوررمضان کے
مابین شعبان وہ مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے
ہیں )
اس میں یہ
اشارہ ہے کہ جب دو عظیم مہینے یعنی رجب اوررمضان اس کے
آگے پیچھے آئے تولوگ اسے چھوڑ کر ان میں مشغول ہوگئے ، تواس اعتبار سے
اس سے غفلت برتی جانے لگی ، اورپھربہت سے لوگوں کا یہ
خیال ہے کہ رجب کے روزے شعبان میں روزے رکھنے سے افضل ہيں ، اس
لیے کہ رجب حرمت والی مہنیہ ہے ، حالانکہ معاملہ ایسا
نہیں ۔
بلکہ سابقہ حدیث
میں تو اس بات کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ بعض اوقات جن اوقات اورجگہوں
اوراشخاص کی فضیلت مشہور ہوچکی ہوتی ہے اس کےعلاوہ دوسرے
اس سے بھی افضل ہوتے ہيں ۔
اوراس حدیث
میں یہ بھی دلیل ہے کہ لوگوں کی غفلت والے اوقات
میں اللہ تعالی کی اطاعت کرنی مستحب ہے ، جیسا کہ
سلف میں سےکچھ حضرات نمازعشاء اورنماز مغرب کے مابین نمازپڑھنا مستحب
سمجھتے اورکہتے تھے کہ یہ غفلت کا وقت ہے ۔
اوراسی طرح بازار
میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ
جگہ بھی غفلت والی ہے اس لیے اہل غفلت کے اندر رہتے ہوئے اطاعت
کرنا بھی ایک ذکر ہے ، غفلت کے اوقات میں اطاعت کرنے کے بہت سے
فوائد ہیں جن میں سے چند ایک ذیل میں بیان
کیے جاتے ہیں :
ایسا کرنا
کسی بھی عمل کوپوشیدہ رکھنے کا باعث ہوتاہے اورپھر نوافل کو
پوشیدہ رکھنا اورچھپانا ہی افضل ہے ، خاص کر روزہ جو کہ بندے اوراس کے
رب کے مابین ایک رازہوتا ہے ، اسی لیے یہ کہا جاتا
ہے کہ اس میں کوئي ریاء نہيں ہوتی ، بعض سلف صالحین
کئی کئي سال تک روزہ رکھا کرتے لیکن کسی کو بھی اس کا علم
نہيں ہوتا تھا کہ وہ روزے سے ہیں ۔
وہ جب گھر سے بازار
نکلتے توان کے پاس دو روٹیاں ہوتیں وہ انہیں صدقہ کردیتے
جبکہ ان کے گھر والے یہی خیال کرتے کہ انہوں نے خود کھائي
ہیں اوربازار والے یہ سمجھتے کہ وہ گھر سے کھا کر آئے ہیں ، سلف
رحمہ اللہ یہ مستحب سمجھتے تھے کہ ایسی چيز کا اظہار کیا
جائے جو روزے کی مخفی رکھے ۔
ابن مسعود رضی
اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
جب تم روزہ رکھو تو
تیل لگایا کرو ۔
اورقتادہ رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
روزے دار کے تیل
لگانا مستحب ہے کہ تاکہ اس سے روزے کے آثار ختم ہو جائيں ۔
اوراسی طرح اوقات
غفلت میں اعمال صالحہ کرنے میں نفوس پر زيادہ مشقت ہوتی ہے ،
اوراعمال کے افضل ہونے کے اسباب میں اس کا نفس پرمشقت والاہونا بھی
ایک سبب ہے ، کیونکہ جب کسی عمل میں بہت سارے
مشارکین ہوں تو وہ کام کرنا زيادہ آسان ہوتا ہے ، اورجب غفلت زيادہ ہوتو پھر
وہی کام کرنے والے کے لیے مشکل ہوتا ہے ۔
حدیث میں ہے
کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں
کہ :
فتنہ وفساد کے وقت عبادت
ھحرت کی طرح ہے ۔
صحیح مسلم
حدیث نمبر ( 2984 ) ۔
( یعنی فتنہ
کے دور میں عبادت کرنی کیونکہ لوگ اپنی خواہشات کی
پیروی کرتے ہیں تودین پر عمل پیرا ہونے والا شخص
مشقت والے کام سرانجام دیتا رہتا ہے ) ۔
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے شعبان میں روزے کثرت سے رکھنے کے اسباب میں
اہل علم کا اختلاف ہے جس میں کئي ایک اقوال بیان کیے گئے
ہیں :
1 -
سفر یا کسی اورسبب کی وجہ سے وہ مہینے کے
تین روزے نہیں رکھ سکتے تھے جو جمع ہوجاتے اورانہیں شعبان
میں قضا کرتے تھے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
جب کوئی نفلی کام کرتے تواس پرثابت قدمی کرتے اوراگررہ جاتا تو
اسی قضا کرتے تھے ۔
2 -
ایک قول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی رمضان میں رہ جانے والے روزں کی قضاء شعبان میں
کرتی تھیں تواس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
بھی روزے رکھتے تھے ، عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے وارد ہے کہ وہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے
رمضان کے روزوں کی قضاء شعبان تک موخر کردیتی تھیں
۔
3 -
ایک قول یہ بھی ہے کہ : شعبان میں لوگ غفلت کا
شکار رہتے ہیں ، اورراجح قول بھی یہی ہے کیونکہ
مندرجہ بالہ حدیث اسامہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی اسی
پر دلالت کرتی ہے جس میں مذکور ہے کہ :
( رجب اوررمضان کے
مابین یہ مہینہ ایسا ہے جس میں لوگ غفلت شکار رہتے
ہیں ) سنن نسائی
دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب صفحہ (
425 ) ۔
جب شعبان شروع ہوتا
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کچھ نفلی روزے
باقی ہوتے توآپ انہیں رمضان شروع ہونے سے قبل شعبان میں
ہی مکمل کرلیتے جیسا کہ اگر نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنتیں یا پھر قیام اللیل رہ
جاتا وہ آپ اس کی بھی قضاء دیا کرتے تھے ۔
اس لیے عائشہ رضي
اللہ تعالی عنہا اس مہینہ میں موقع پا کراپنے رمضان کے
نفلی روزے پورے کرتی تھیں کیونکہ باقی مہینوں
میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشغول رہتی
تھیں ۔
اس لیے متنبہ رہنا
چاہیے کہ اگر کسی کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے باقی ہوں تو اسے
آنے والے رمضان سے قبل وہ روزے رکھنے چاہییں ، کیونکہ
بغیر کسی ضرورت کے دوسرے رمضان کے بعد تک موخر کرنا جائز نہیں (
لیکن اگر کوئي ایسا عذر ہوجودونوں رمضانوں کے مابین مستقل طور
پر قائم رہے ) ۔
جورمضان المبارک سے قبل
ہی پچھلے رمضان کے روزوں کی قضا ادا کرنے پر قادررہوتا ہوا روزے نہ
رکھے تو اس پرقضاء اورتوبہ کے ساتھ ساتھ ہرروزہ کے بدلے میں ایک
مسکین کا کھانا بھی بطور کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہوگا ، امام
شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہم اللہ تعالی عنہم کا بھی
یہی قول ہے ۔
اسی طرح شعبان
میں روزے رکھنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ رمضان کے لیے روزے
رکھنے کی مشق ہوجاتی ہے ، تا کہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے
میں مشقت نہ اٹھانی پڑے ، بلکہ شعبان کے مہینہ میں روزے
رکھ کر اس کا عادی بن چکا ہو اوررمضان المبارک کے روزے وہ پوری قوت
وطاقت اورنشاط و چستی سے رکھ سکے ۔
اورجب شعبان کا
مہینہ رمضان المبارک کا مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے تو اس
لیے اس میں روزے رکھنا اورتلاوت قرآن کریم کرنا اورصدقہ وخیرات
کرنا چاہیے تا کہ رمضان میں آسانی پیدا ہوسکے ۔
سلمہ بن سہیل کہتے
ہیں کہ : شعبان کے بارہ میں کہا جاتا تھا کہ شعبان کا مہینہ
قاریوں کا مہینہ ہے ۔
جب شعبان کا مہینہ
شروع ہوتا توحبیب بن ابی ثابت کہتے یہ قراءکرام کا مہینہ
ہے ۔
اورشعبان کے مہینہ
کے شروع ہوتے ہی عمرو بن قیس الملانی اپنی دکان بند
کردیتے تھے تا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے فارغ
ہوسکیں ۔
شعبان کے
آخر میں روزے رکھنا :
صحیحن میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما
سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص
کوفرمایا :
کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟
اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تم روزے ختم کرو تواس کے بدلے میں دو روزے رکھو ۔
اورمسلم کی ایک روایت میں ہے کہ :
کیا تو نے شعبان کے آخر میں روزے رکھیں ہیں ؟
دیکھیں صحیح بخاری (
4 / 200 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1161 ) ۔
مندرجہ بالاحدیث
میں کلمہ ( سرر ) کی شرح میں اختلاف ہے ، مشہور
تویہی ہے کہ مہینہ کے آخر کو سرار کہاجاتا ہے ، سرار الشھر
سین پر زبر اورزير دونوں پڑھی جاتی ہيں ، لیکن زبرپڑھنا
زيادہ فصیح ہے ، مہینہ کے آخر کوسرار اس لیے کہا جاتا ہےکہ اس
میں چاندچھپا رہتا ہے ۔
اگر کوئي اعتراض کرنے
والا یہ اعتراض کرے کہ صحیحین میں ابوھریرہ رضي
اللہ تعالی تعالی سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رمضان سے ایک
یا دو روز قبل روزہ نہ رکھو ، لیکن جوشخص عادتا روزہ رکھتا ہواسے روزہ
رکھنا چاہیے ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
1983 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1082 ) ۔
توہم ان دونوں
حدیثوں میں جمع کس طرح کریں گے ؟
اس کا جواب یہ ہے
کہ :
بہت سے علماء کرام
اوراکثر شارحین احادیث کا کہنا ہے کہ :
جس شخص سے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا اس کی عادت کے بارہ میں
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم تھا کہ وہ روزے رکھتا ہے ،
یاپھر اس نے نذر مان رکھی تھی جس وجہ سے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے اسے قضا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا
۔
اس مسئلہ میں اس
کے علاوہ اوربھی کئي اقوال پائے جاتے ہيں ، خلاصہ یہ ہے کہ شعبان کے
آخر
میں روزہ رکھنے کی تین حالتیں ہیں :
پہلی حالت : رمضان
کی احتیاط میں رمضان کےروزے کی نیت سے روزہ رکھے ،
ایسا کرنا حرام ہے ۔
دوسری حالت : نذر
یا پھر رمضان کی قضاءیا کفارہ کی نیت سے روزہ رکھے
، جمہور علماء کرام اسے جائز قرار دیتے ہيں ۔
تیسری حالت
: مطلقا نفلی روزے کی نیت کرتےہوئے روزہ رکھاجائے ، جو علماء
کرام شعبان اوررمضان کے مابین روزہ نہ رکھ کران میں فرق کرنے کا کہتے
ہیں ان میں حسن رحمہ اللہ تعالی بھی شامل ہیں وہ ان
نفلی روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ شعبان کے آخر
میں نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیيں ، لیکن اگر وہ
عادتا پہلے سے روزہ رکھ رہا ہو تو وہ ان ایام میں بھی روزہ رکھ
سکتا ہے ۔
امام مالک رحمہ اللہ
تعالی اوران کی موافقت کرنے والوں نے شعبان کے آخر میں
نفلی روزے رکھنے کی اجازت دی ہے ، لیکن امام شافعی
، امام اوزاعی ، امام احمد وغیرہ نے فرق عادت اورغیر عادت
میں فرق کیا ہے ۔
مجمل طور پریہ ہے
کہ مندرجہ بالا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث پر
اکثر علماء کرام کے ہاں عمل ہے ، کہ رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ
رکھنا مکروہ ہے لیکن جس شخص کی عادت ہووہ رکھ سکتا ہے ، اوراسی
طرح وہ شخص جس نے شعبان میں مہینہ کے آخر تک کوئي روزہ نہیں
رکھا توآخر میں وہ بھی روزہ نہیں رکھ سکتا ۔
اگرکوئي اعتراض کرنے
والا یہ اعتراض کرے کہ ( جس کی روزہ رکھنے کی عادت نہیں
اس کے لیے ) رمضان سے قبل روزہ رکھنا کیوں مکروہ ہے ؟ اس کا جواب کئي
ایک طرح ہے :
پہلا نقطہ :
تا کہ رمضان کے روزوں
میں زیادتی نہ ہوجائے ، جس طرح عیدکے دن روزہ رکھنے سے
منع کیا گيا ہے یہاں بھی اسی معنی میں منع
کیا گيا ہے کہ جوکچھ اہل کتاب نے اپنے روزوں میں اپنی آراء
اورخواہشوں سے اضافہ کیا اس سے بچنے کی تنبیہ کی گئي ہے
۔
اوراسی لیے
یوم شک کا روزہ بھی رکھنا منع ہے ، حضرت عمار کہتے ہيں کہ جس نے
بھی یوم شک کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ
وسلم کی نافرمانی کی ، یوم شک وہ دن ہےجس میں شک
ہوکہ رمضان میں شامل ہے کہ نہيں ؟ مثلا کوئی غیر ثقہ شخص خبر دے
کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے تواسے شک کا دن قرار دیا جائے گا
۔
اورابر آلود والے دن کو
کچھ علماء کرام یوم شک شمار کرتے ہیں اوراس میں روزہ رکھنے
کی ممانعت ہے ۔
دوسرامعنی :
نفلی
اورفرضی روزوں میں فرق کرنا چاہیے ، کیونکہ نوافل
اورفرائض میں فرق کرنا مشروع ہے ، اسی لیے عید کے دن روزہ
رکھنا منع کیا گيا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
نماز میں بھی اس سے منع کیا ہے کہ ایک نماز کو
دوسری کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس میں سلام یا کلام کے
ذریعہ فرق کرنا چاہیے ، خاص کر نماز فجر کی سنتوں میں ،
کیونکہ سنتوں اورفرائض کے مابین فرق کرنا مشروع ہے ، اسی بنا پر
نماز گھر میں پڑھنی اورسنت فجر کےبعد لیٹنا مشروع کیا گيا
ہے ۔
جب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز فجر کی
اقامت ہونے کے بعد بھی نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے اسے فرمایا :
کیا صبح کیا
نماز چار رکعات ہے ۔
دیکھیں
صحیح بخاری حدیث نمبر (
663 ) ۔
بعض جاہل قسم کے لوگ
یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان سے قبل روزہ نہ رکھنے کا معنی
ہے کہ کھانے پینے کوغنیمت سمجھا جائے تا کہ روزے رکھنے سے قبل کھانے
پینے کی شھوت پوری کرلی جائے ، لیکن یہ گمان
غلط ہے اورجو بھی ایسا خیال رکھنے وہ جاہل ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
۔
مراجع :
لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف : تالیف ابن رجب
حنبلی رحمہ اللہ تعالی ۔
الالمام بشئی من
احکام الصیام تالیف عبدالعزيز الراجحی
شعبان ایک مہینے کا نام ہے اسے شعبان اس لیے کہاجاتا ہے کہاس ماہ میں عرب پانی تلاش کرنے نکلتے تھے ، اورایک قول یہبھی ہے کہ وہ جنگوں میں نکلتے تھے ، اورایک قول یہبھی ہے کہ اس مہینہ کو رجب اوررمضان کے مابین ہونے کی وجہ سے شعبان کہا جاتا ہے ، اس کی جمع شعبانات اورشعابین ہے ۔
شعبان کے مہینہ میں روزے رکھنا :
عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب وہ روزے نہیں چھوڑيں گے ، اورجب آپ روزے نہ رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے
۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں مکمل مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اورمیں نے انہیں شعبان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھے ۔
دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر (
1833 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1956 )
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں تقریبا سارا مہینہ ہی روزے رکھا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر (
1957 ) ۔
علماء کرام کے ایک گروہ جس میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں پورا مہینہ روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ اس میں وہ اکثرایام روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس کی دلیل اورشاھد عائشہ رضي اللہ تعالی کی مندرجہ ذيل حدیث ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے:
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ مجھے علم نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ مکمل مہینہ کے روزے رکھیں ہوں دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر (
1954 )
اورایک روایت میں ہے کہ :
جب سے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت سے میں
نے انہیں رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کے مکمل روزے رکھتے ہوئے
نہیں دیکھا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (
1955 ) ۔
صحیحین
میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینہ کے
روزے نہیں رکھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حديث نمبر (
1971 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1157 ) ۔
ابن عباس رضی اللہ
تعالی عنہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینہ کے روزے
رکھنا مکروہ سمجھتے تھے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزے باقی سب مہینوں سے
زیادہ ہوتے تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے
مہینہ میں اکثرایام روزے رکھا کرتے تھے ۔
اسامہ بن زيد رضي اللہ
تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم میں دیکھتاہوں کہ آپ باقی مہینوں
میں اتنے روزے نہيں رکھتےجتنے شعبان میں رکھتے ہیں ؟
تورسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
یہ ایسا
مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے ہیں ، یہ
مہینہ رجب اور رمضان کے مابین ہے ، اوریہ ایسا
مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ رب العالمین کے ہاں اٹھائے جاتے
ہیں ، اورمیں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے
کی حالت میں اٹھائے جائيں ۔
اسے نسائی نے
روایت کیا ہے ، دیکھیں صحیح الترغیب
والترھیب صفحہ (
425 )
۔
اورابوداود کی
روایت میں ہے کہ :
عائشہ رضی اللہ
تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ شعبان میں سب سے زیادہ روزے رکھنا پسند فرماتے تھے ،
اورپھر اسے رمضان کے ساتھ ملالیتے تھے ۔
علامہ البانی رحمہ
اللہ تعالی نے اسے صحیح قراردیا ہے دیکھیں
صحیح سنن ابوداود (
2 / 461 ) ۔
ابن رجب رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
شعبان کے روزے اشھرالحرم
کےروزوں سے افضل ہیں ، سب سے افضل وہ نفلی عبادت ہے جو رمضان سے قبل
اوربعد میں رمضان سے ملحق ہو ، ان روزوں کا درجہ فرائض کے ساتھ سنن مؤکدہ
جیسا ہے جوفرائض سے قبل اوربعد میں پڑھی جاتی ہیں ،
جوکہ فرائض کے نقص کوپورا کریں گے ، رمضان سے قبل اوربعد میں روزے
بھی اسی طرح ہیں ۔
توجس طرح نماز میں
عام نفلوں سے سنت موکدہ افضل ہیں اسی طرح رمضان سے اوراس کےبعد روزے
بھی افضل ہیں ۔
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( رجب اوررمضان کے
مابین شعبان وہ مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے
ہیں )
اس میں یہ
اشارہ ہے کہ جب دو عظیم مہینے یعنی رجب اوررمضان اس کے
آگے پیچھے آئے تولوگ اسے چھوڑ کر ان میں مشغول ہوگئے ، تواس اعتبار سے
اس سے غفلت برتی جانے لگی ، اورپھربہت سے لوگوں کا یہ
خیال ہے کہ رجب کے روزے شعبان میں روزے رکھنے سے افضل ہيں ، اس
لیے کہ رجب حرمت والی مہنیہ ہے ، حالانکہ معاملہ ایسا
نہیں ۔
بلکہ سابقہ حدیث
میں تو اس بات کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ بعض اوقات جن اوقات اورجگہوں
اوراشخاص کی فضیلت مشہور ہوچکی ہوتی ہے اس کےعلاوہ دوسرے
اس سے بھی افضل ہوتے ہيں ۔
اوراس حدیث
میں یہ بھی دلیل ہے کہ لوگوں کی غفلت والے اوقات
میں اللہ تعالی کی اطاعت کرنی مستحب ہے ، جیسا کہ
سلف میں سےکچھ حضرات نمازعشاء اورنماز مغرب کے مابین نمازپڑھنا مستحب
سمجھتے اورکہتے تھے کہ یہ غفلت کا وقت ہے ۔
اوراسی طرح بازار
میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ
جگہ بھی غفلت والی ہے اس لیے اہل غفلت کے اندر رہتے ہوئے اطاعت
کرنا بھی ایک ذکر ہے ، غفلت کے اوقات میں اطاعت کرنے کے بہت سے
فوائد ہیں جن میں سے چند ایک ذیل میں بیان
کیے جاتے ہیں :
ایسا کرنا
کسی بھی عمل کوپوشیدہ رکھنے کا باعث ہوتاہے اورپھر نوافل کو
پوشیدہ رکھنا اورچھپانا ہی افضل ہے ، خاص کر روزہ جو کہ بندے اوراس کے
رب کے مابین ایک رازہوتا ہے ، اسی لیے یہ کہا جاتا
ہے کہ اس میں کوئي ریاء نہيں ہوتی ، بعض سلف صالحین
کئی کئي سال تک روزہ رکھا کرتے لیکن کسی کو بھی اس کا علم
نہيں ہوتا تھا کہ وہ روزے سے ہیں ۔
وہ جب گھر سے بازار
نکلتے توان کے پاس دو روٹیاں ہوتیں وہ انہیں صدقہ کردیتے
جبکہ ان کے گھر والے یہی خیال کرتے کہ انہوں نے خود کھائي
ہیں اوربازار والے یہ سمجھتے کہ وہ گھر سے کھا کر آئے ہیں ، سلف
رحمہ اللہ یہ مستحب سمجھتے تھے کہ ایسی چيز کا اظہار کیا
جائے جو روزے کی مخفی رکھے ۔
ابن مسعود رضی
اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
جب تم روزہ رکھو تو
تیل لگایا کرو ۔
اورقتادہ رحمہ اللہ
تعالی کہتے ہیں :
روزے دار کے تیل
لگانا مستحب ہے کہ تاکہ اس سے روزے کے آثار ختم ہو جائيں ۔
اوراسی طرح اوقات
غفلت میں اعمال صالحہ کرنے میں نفوس پر زيادہ مشقت ہوتی ہے ،
اوراعمال کے افضل ہونے کے اسباب میں اس کا نفس پرمشقت والاہونا بھی
ایک سبب ہے ، کیونکہ جب کسی عمل میں بہت سارے
مشارکین ہوں تو وہ کام کرنا زيادہ آسان ہوتا ہے ، اورجب غفلت زيادہ ہوتو پھر
وہی کام کرنے والے کے لیے مشکل ہوتا ہے ۔
حدیث میں ہے
کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں
کہ :
فتنہ وفساد کے وقت عبادت
ھحرت کی طرح ہے ۔
صحیح مسلم
حدیث نمبر ( 2984 ) ۔
( یعنی فتنہ
کے دور میں عبادت کرنی کیونکہ لوگ اپنی خواہشات کی
پیروی کرتے ہیں تودین پر عمل پیرا ہونے والا شخص
مشقت والے کام سرانجام دیتا رہتا ہے ) ۔
نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے شعبان میں روزے کثرت سے رکھنے کے اسباب میں
اہل علم کا اختلاف ہے جس میں کئي ایک اقوال بیان کیے گئے
ہیں :
1 -
سفر یا کسی اورسبب کی وجہ سے وہ مہینے کے
تین روزے نہیں رکھ سکتے تھے جو جمع ہوجاتے اورانہیں شعبان
میں قضا کرتے تھے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
جب کوئی نفلی کام کرتے تواس پرثابت قدمی کرتے اوراگررہ جاتا تو
اسی قضا کرتے تھے ۔
2 -
ایک قول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی رمضان میں رہ جانے والے روزں کی قضاء شعبان میں
کرتی تھیں تواس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
بھی روزے رکھتے تھے ، عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے وارد ہے کہ وہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے
رمضان کے روزوں کی قضاء شعبان تک موخر کردیتی تھیں
۔
3 -
ایک قول یہ بھی ہے کہ : شعبان میں لوگ غفلت کا
شکار رہتے ہیں ، اورراجح قول بھی یہی ہے کیونکہ
مندرجہ بالہ حدیث اسامہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی اسی
پر دلالت کرتی ہے جس میں مذکور ہے کہ :
( رجب اوررمضان کے
مابین یہ مہینہ ایسا ہے جس میں لوگ غفلت شکار رہتے
ہیں ) سنن نسائی
دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب صفحہ (
425 ) ۔
جب شعبان شروع ہوتا
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کچھ نفلی روزے
باقی ہوتے توآپ انہیں رمضان شروع ہونے سے قبل شعبان میں
ہی مکمل کرلیتے جیسا کہ اگر نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنتیں یا پھر قیام اللیل رہ
جاتا وہ آپ اس کی بھی قضاء دیا کرتے تھے ۔
اس لیے عائشہ رضي
اللہ تعالی عنہا اس مہینہ میں موقع پا کراپنے رمضان کے
نفلی روزے پورے کرتی تھیں کیونکہ باقی مہینوں
میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشغول رہتی
تھیں ۔
اس لیے متنبہ رہنا
چاہیے کہ اگر کسی کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے باقی ہوں تو اسے
آنے والے رمضان سے قبل وہ روزے رکھنے چاہییں ، کیونکہ
بغیر کسی ضرورت کے دوسرے رمضان کے بعد تک موخر کرنا جائز نہیں (
لیکن اگر کوئي ایسا عذر ہوجودونوں رمضانوں کے مابین مستقل طور
پر قائم رہے ) ۔
جورمضان المبارک سے قبل
ہی پچھلے رمضان کے روزوں کی قضا ادا کرنے پر قادررہوتا ہوا روزے نہ
رکھے تو اس پرقضاء اورتوبہ کے ساتھ ساتھ ہرروزہ کے بدلے میں ایک
مسکین کا کھانا بھی بطور کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہوگا ، امام
شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہم اللہ تعالی عنہم کا بھی
یہی قول ہے ۔
اسی طرح شعبان
میں روزے رکھنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ رمضان کے لیے روزے
رکھنے کی مشق ہوجاتی ہے ، تا کہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے
میں مشقت نہ اٹھانی پڑے ، بلکہ شعبان کے مہینہ میں روزے
رکھ کر اس کا عادی بن چکا ہو اوررمضان المبارک کے روزے وہ پوری قوت
وطاقت اورنشاط و چستی سے رکھ سکے ۔
اورجب شعبان کا
مہینہ رمضان المبارک کا مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے تو اس
لیے اس میں روزے رکھنا اورتلاوت قرآن کریم کرنا اورصدقہ وخیرات
کرنا چاہیے تا کہ رمضان میں آسانی پیدا ہوسکے ۔
سلمہ بن سہیل کہتے
ہیں کہ : شعبان کے بارہ میں کہا جاتا تھا کہ شعبان کا مہینہ
قاریوں کا مہینہ ہے ۔
جب شعبان کا مہینہ
شروع ہوتا توحبیب بن ابی ثابت کہتے یہ قراءکرام کا مہینہ
ہے ۔
اورشعبان کے مہینہ
کے شروع ہوتے ہی عمرو بن قیس الملانی اپنی دکان بند
کردیتے تھے تا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے فارغ
ہوسکیں ۔
شعبان کے
آخر میں روزے رکھنا :
صحیحن میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما
سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص
کوفرمایا :
کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟
اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تم روزے ختم کرو تواس کے بدلے میں دو روزے رکھو ۔
اورمسلم کی ایک روایت میں ہے کہ :
کیا تو نے شعبان کے آخر میں روزے رکھیں ہیں ؟
دیکھیں صحیح بخاری (
4 / 200 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1161 ) ۔
مندرجہ بالاحدیث
میں کلمہ ( سرر ) کی شرح میں اختلاف ہے ، مشہور
تویہی ہے کہ مہینہ کے آخر کو سرار کہاجاتا ہے ، سرار الشھر
سین پر زبر اورزير دونوں پڑھی جاتی ہيں ، لیکن زبرپڑھنا
زيادہ فصیح ہے ، مہینہ کے آخر کوسرار اس لیے کہا جاتا ہےکہ اس
میں چاندچھپا رہتا ہے ۔
اگر کوئي اعتراض کرنے
والا یہ اعتراض کرے کہ صحیحین میں ابوھریرہ رضي
اللہ تعالی تعالی سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رمضان سے ایک
یا دو روز قبل روزہ نہ رکھو ، لیکن جوشخص عادتا روزہ رکھتا ہواسے روزہ
رکھنا چاہیے ) صحیح بخاری حدیث نمبر (
1983 ) صحیح مسلم حدیث نمبر (
1082 ) ۔
توہم ان دونوں
حدیثوں میں جمع کس طرح کریں گے ؟
اس کا جواب یہ ہے
کہ :
بہت سے علماء کرام
اوراکثر شارحین احادیث کا کہنا ہے کہ :
جس شخص سے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا اس کی عادت کے بارہ میں
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم تھا کہ وہ روزے رکھتا ہے ،
یاپھر اس نے نذر مان رکھی تھی جس وجہ سے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے اسے قضا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا
۔
اس مسئلہ میں اس
کے علاوہ اوربھی کئي اقوال پائے جاتے ہيں ، خلاصہ یہ ہے کہ شعبان کے
آخر
میں روزہ رکھنے کی تین حالتیں ہیں :
پہلی حالت : رمضان
کی احتیاط میں رمضان کےروزے کی نیت سے روزہ رکھے ،
ایسا کرنا حرام ہے ۔
دوسری حالت : نذر
یا پھر رمضان کی قضاءیا کفارہ کی نیت سے روزہ رکھے
، جمہور علماء کرام اسے جائز قرار دیتے ہيں ۔
تیسری حالت
: مطلقا نفلی روزے کی نیت کرتےہوئے روزہ رکھاجائے ، جو علماء
کرام شعبان اوررمضان کے مابین روزہ نہ رکھ کران میں فرق کرنے کا کہتے
ہیں ان میں حسن رحمہ اللہ تعالی بھی شامل ہیں وہ ان
نفلی روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ شعبان کے آخر
میں نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیيں ، لیکن اگر وہ
عادتا پہلے سے روزہ رکھ رہا ہو تو وہ ان ایام میں بھی روزہ رکھ
سکتا ہے ۔
امام مالک رحمہ اللہ
تعالی اوران کی موافقت کرنے والوں نے شعبان کے آخر میں
نفلی روزے رکھنے کی اجازت دی ہے ، لیکن امام شافعی
، امام اوزاعی ، امام احمد وغیرہ نے فرق عادت اورغیر عادت
میں فرق کیا ہے ۔
مجمل طور پریہ ہے
کہ مندرجہ بالا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث پر
اکثر علماء کرام کے ہاں عمل ہے ، کہ رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ
رکھنا مکروہ ہے لیکن جس شخص کی عادت ہووہ رکھ سکتا ہے ، اوراسی
طرح وہ شخص جس نے شعبان میں مہینہ کے آخر تک کوئي روزہ نہیں
رکھا توآخر میں وہ بھی روزہ نہیں رکھ سکتا ۔
اگرکوئي اعتراض کرنے
والا یہ اعتراض کرے کہ ( جس کی روزہ رکھنے کی عادت نہیں
اس کے لیے ) رمضان سے قبل روزہ رکھنا کیوں مکروہ ہے ؟ اس کا جواب کئي
ایک طرح ہے :
پہلا نقطہ :
تا کہ رمضان کے روزوں
میں زیادتی نہ ہوجائے ، جس طرح عیدکے دن روزہ رکھنے سے
منع کیا گيا ہے یہاں بھی اسی معنی میں منع
کیا گيا ہے کہ جوکچھ اہل کتاب نے اپنے روزوں میں اپنی آراء
اورخواہشوں سے اضافہ کیا اس سے بچنے کی تنبیہ کی گئي ہے
۔
اوراسی لیے
یوم شک کا روزہ بھی رکھنا منع ہے ، حضرت عمار کہتے ہيں کہ جس نے
بھی یوم شک کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ
وسلم کی نافرمانی کی ، یوم شک وہ دن ہےجس میں شک
ہوکہ رمضان میں شامل ہے کہ نہيں ؟ مثلا کوئی غیر ثقہ شخص خبر دے
کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے تواسے شک کا دن قرار دیا جائے گا
۔
اورابر آلود والے دن کو
کچھ علماء کرام یوم شک شمار کرتے ہیں اوراس میں روزہ رکھنے
کی ممانعت ہے ۔
دوسرامعنی :
نفلی
اورفرضی روزوں میں فرق کرنا چاہیے ، کیونکہ نوافل
اورفرائض میں فرق کرنا مشروع ہے ، اسی لیے عید کے دن روزہ
رکھنا منع کیا گيا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
نماز میں بھی اس سے منع کیا ہے کہ ایک نماز کو
دوسری کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس میں سلام یا کلام کے
ذریعہ فرق کرنا چاہیے ، خاص کر نماز فجر کی سنتوں میں ،
کیونکہ سنتوں اورفرائض کے مابین فرق کرنا مشروع ہے ، اسی بنا پر
نماز گھر میں پڑھنی اورسنت فجر کےبعد لیٹنا مشروع کیا گيا
ہے ۔
جب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز فجر کی
اقامت ہونے کے بعد بھی نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے اسے فرمایا :
کیا صبح کیا
نماز چار رکعات ہے ۔
دیکھیں
صحیح بخاری حدیث نمبر (
663 ) ۔
بعض جاہل قسم کے لوگ
یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان سے قبل روزہ نہ رکھنے کا معنی
ہے کہ کھانے پینے کوغنیمت سمجھا جائے تا کہ روزے رکھنے سے قبل کھانے
پینے کی شھوت پوری کرلی جائے ، لیکن یہ گمان
غلط ہے اورجو بھی ایسا خیال رکھنے وہ جاہل ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
۔
مراجع :
لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف : تالیف ابن رجب
حنبلی رحمہ اللہ تعالی ۔
الالمام بشئی من
احکام الصیام تالیف عبدالعزيز الراجحی